tag:blogger.com,1999:blog-47351058214028744102024-03-13T20:00:26.118+05:00عرفانیاتملنے سے دوریاں بڑھتی ہیںاحمد عرفان شفقتhttp://www.blogger.com/profile/08344288462877613544noreply@blogger.comBlogger53125tag:blogger.com,1999:blog-4735105821402874410.post-68064129556304390862016-05-07T19:50:00.000+05:002016-05-07T19:50:01.725+05:00برکت کیا ہے؟<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
برکت کو بیان نہیں، محسوس کیا جاسکتا ہے۔ جب آپ آمدن و اخراجات کے حساب کتاب کے چکر میں پڑے بغیر اور بنا کسی ٹینشن کے اپنا کچن چلا رہے ہوں تو اسے برکت کہتے ہیں۔ پھر چاہے آپ کی آمدن ایک لاکھ ہو یا ایک ہزار۔ اس کی سب سے بڑی نشانی دل کا اطمینان ہوتا ہے جو کہ بڑے بڑے سیٹھوں اور سرمایہ داروں کو نصیب نہیں ہوتا۔</div>
<div style="text-align: right;">
اگر برکت دیکھنی ہو تو سخت گرمیوں میں روڈ کھودتے کسی مزدور کو کھانے کے وقفہ میں دیکھ لیں جب وه دیوار کی اوٹ لے کر اپنی چادر پھیلا کر بیٹھتا ہے، اپنا ٹفن کھول کر، اس پر روٹی بچھاتا ہے، پھر اچار کی چند قاشیں نکال کر اس پر ڈال دیتا ہے اور بسم الله پڑھ کر نوالہ توڑتا ہے۔ اس کیفیت میں جو قرار اور دلی اطمینان اس کو محسوس ہو رہا ہوتا ہے وه کسی لکھ پتی کو میک ڈونلڈ اور کے ایف سی کے مہنگے برگر کھا کر بھی نصیب نہیں ہوتا۔</div>
<div style="text-align: right;">
برکت کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ الله تعالى آپ کو اور آپ کے گھر کے افراد کو کسی بڑی بیماری یا مصیبت سے محفوظ رکھتا ہے۔ انسان، اسپتال اور ڈاکٹروں کے چکروں سے بچا رہتا ہے۔ یوں اس کی آمدن پانی کی طرح بہہ جانے سے محفوظ ره جاتی ہے۔</div>
<div style="text-align: right;">
برکت کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ آپ کی بیوی قناعت پسند اور شکرگذار ہے۔ وه تھوڑے پر راضی ہوجاتی ہے، کپڑوں، میک اپ اور دیگر فرمائشوں سے آپ کی جیب پر بوجھ نہیں بنتی، یوں آپ کو اطمینان قلب کے ساتھ ساتھ مالی مشکلوں سے بھی بچالیتی ہے۔</div>
<div style="text-align: right;">
برکت کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ آپ کو الله تعالى نے نیک اور شکرگذار اولاد عطا کی ہے۔ وه اپنے دوستوں کی دیکھا دیکھی، آئے دن آپ سے نئی نئی فرمائشیں (مثلاً موبائل، کپڑے، جوتے وغیره) نہیں کرتی بلکہ قانع اور شاکر رہتی ہے۔</div>
<div style="text-align: right;">
برکت کا تعلق مادی ذرائع کے برعکس الله تعالى کی غیبی امداد سے ہے۔ ایسی غیبی امداد جو نہ صرف آپ کے قلب کو اطمینان کا سرور دے بلکہ آپ کی ضروریات بھی آپ کی آمدن کے اندراندر پوری ہوجائیں۔</div>
<div style="text-align: right;">
یہ تو تھی مال اور آمدن میں برکت۔ اسی طرح وقت اور زندگی میں برکت ہوتی ہے۔ وقت میں برکت یہ ہے کہ آپ کم وقت میں زیاده اور نتیجہ خیز کام کر سكيں، آپ کا وقت ادھرادھر فضول چیزوں میں ضائع نہ ہو۔ اسی طرح عمر میں برکت یہ ہے کہ آپ کی زندگی برے کاموں میں خرچ نہ ہو رہی ہو بلکہ اچھے کاموں میں صرف ہو رہی ہو۔</div>
<div style="text-align: right;">
کم کھانا، زیاده افراد میں پورا پڑ جانا بھی برکت ہے۔ آپ کی کم محنت کا پھل زیاده آمدن یا پیداوار کی صورت میں نکلنا بھی برکت ہے۔</div>
<div style="text-align: right;">
یوں سمجھیں کہ برکت الله تعالیٰ کی طرف سے اپنے بندے کے لیے ’’سپيشل انعام‘‘ ہے</div>
<div style="text-align: right;">
برکت کے حصول کا نہایت آسان طریقہ صدقہ کرنا ہے یا کسی یتیم کی کفالت کرنا ہے۔ آپ اپنے خاندان میں یا محلہ میں دیکھیں کوئی یتیم ہو، اس کو اپنا بیٹا یا بیٹی بنالیں، اس کی پرورش اسی طرح کریں جیسے اپنی سگی اولاد کی کی جاتی ہے پھر دیکھیں کس طرح برکت آپ کے گھر چھپر پھاڑ کر آتی ہے۔</div>
<div style="text-align: right;">
بھول جائیں کہ جس گھر میں لوگ دن چڑھے تک سوتے رہتے ہوں وہاں کبھی برکت آئے گی۔ کیوں کہ نبی كريم ﷺ کے ارشاد کا مفہوم ہے کہ میری امت کے لیے دن کے اولین حصے میں برکت رکھ دی گئی ہے۔ اسی طرح شوقیہ کتا پالنا، تصویریں اور میوزک بھی برکت کے اٹھ جانے کے اسباب میں سے ہیں۔ اس کے علاوہ لباس اور جسم کی پاکی اور حلال ذریعہ آمدن برکت کے حصول کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ کوئی سودی اور ناجائز کاروبار میں ملوث ہو یا جسم اور کپڑوں کو ناپاک رکھتا ہو </div>
<div style="text-align: right;">
پھر برکت کا امیدوار بھی ہو تو اس کی ساده لوحی پر حیران ہی ہوا جا سکتا ہے۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
SOURCE:<a href="https://www.facebook.com/permalink.php?story_fbid=486181458239805&id=450105085180776" target="_blank">دین و دانش</a></div>
احمد عرفان شفقتhttp://www.blogger.com/profile/08344288462877613544noreply@blogger.com2tag:blogger.com,1999:blog-4735105821402874410.post-21383624672879327432016-03-29T22:03:00.000+05:002016-03-29T22:06:31.291+05:00اللہ کا مقام اور شان<div style="text-align: right;">
اللہ اپنی سلطنت، بادشاہت میں کسی کو شریک نہیں کرتا۔ اللہ اپنی کائنات کا تمام ترسلسلہ بغیر کسی کی مدد، مشورے اور مداخلت کے اکیلا خود اپنی مرضی سے چلا رہا ہے۔ کوئی نبی، ولی، پیر ، پیغمبر، جن، فرشتہ، زندہ، مردہ، سائیں، قلندر، قطب، ابدال، گدی درگاہ آستانے والا، جادوگر، نجومی، عامل، بابا، چھوٹا،بڑا کبھی بھی اللہ کے نظام میں کوئی مداخلت نہیں کر سکتا۔ </div>
<div style="text-align: right;">
تمام طاقت،اختیار،مِلک،قدرت،قبضہ،کنٹرول،فضل،برکت،رحمت،خیر بس صرف ایک اللہ کے مکمل اختیار میں ہے۔</div>
<div style="text-align: right;">
اللہ نے قرآن میں ایک سے زائد مرتبہ فرمایا ہے کہ اللہ کی صحیح معنوں میں قدر نہیں جانی گئی۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
احمد عرفان شفقتhttp://www.blogger.com/profile/08344288462877613544noreply@blogger.com1tag:blogger.com,1999:blog-4735105821402874410.post-115241051698036752015-01-28T09:53:00.000+05:002015-01-28T09:54:53.505+05:00بیماری<div style="text-align: right;">
بہتر یہی ہے کہ باتوں کو برداشت کرنے کی عادت ڈالی جائے اور خاموش رہا جائے اور اس شخص کی نصیحت پر دھیان دیا جائے جس نے کہا تھا کہ ہر بات کو شدت سے محسوس کرنا بیماری کی علامت ہے۔</div>
احمد عرفان شفقتhttp://www.blogger.com/profile/08344288462877613544noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-4735105821402874410.post-54112515339353899712014-08-11T11:06:00.000+05:002014-08-11T11:06:25.290+05:00یقین کی ڈورجس یقین کی ڈور اللہ کے ساتھ منسلک ہو اس یقین کو اگر انسان نہیں چھوڑتا تو اس ڈور کو اللہ بھی نہیں توڑتا ۔۔!احمد عرفان شفقتhttp://www.blogger.com/profile/08344288462877613544noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-4735105821402874410.post-30191341834694092262013-01-25T10:52:00.000+05:002016-03-29T22:09:12.438+05:00عید میلاد النبی؟؟؟<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
</div>
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgF0FZTnJbukp5-ZSKduGK3sG6AYg8dz8UyX_apimf1dd9tkXbCRheKoAreQqE5DcuJQ1vCy9zBAAr0znl_QXxjDzhf_2TqMFmjSS_U59f_B-qz6ISozuN4Y-HB2XYdm_wnc0TD51rrfG6k/s1600/12rabiulawal.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" height="400" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgF0FZTnJbukp5-ZSKduGK3sG6AYg8dz8UyX_apimf1dd9tkXbCRheKoAreQqE5DcuJQ1vCy9zBAAr0znl_QXxjDzhf_2TqMFmjSS_U59f_B-qz6ISozuN4Y-HB2XYdm_wnc0TD51rrfG6k/s400/12rabiulawal.jpg" width="291" /></a></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<a href="http://tribune.com.pk/story/498665/eid-milad-massive-cakes-baked-to-celebrate-rabiul-awal-12/" target="_blank">اور اس پر بھی غور کریں ذرا۔۔۔</a></div>
<div style="text-align: right;">
</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
احمد عرفان شفقتhttp://www.blogger.com/profile/08344288462877613544noreply@blogger.com7tag:blogger.com,1999:blog-4735105821402874410.post-31791246455596450102012-10-09T20:44:00.000+05:002012-10-09T20:44:07.958+05:00چاروں موسم یکجا<div style="text-align: right;">
یہ سال کا وہ وقت ہے جس میں گمان ہوتا ہے جیسے چاروں موسم اکٹھے آن موجود ہوئے ہیں۔
کبھی گرمی کا احساس ایسا ہوتا ہے کہ اے سی چلا دو۔ کبھی خنکی ایسی کہ لگے اب گیزر چلے۔ لان میں جا کر زرد پتے جو دیکھو ہر سُو تو جانو ارے یہ تو خزاں ہے۔ اور دن کے کسی حصے میں دل ایک عجیب خوشی اور قرار سے ہو جائے سرشار تو دِکھے یہی ہے بہار۔
یہی تو ہیں قدرت کے فنون لطیفہ۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<table align="center" cellpadding="0" cellspacing="0" class="tr-caption-container" style="margin-left: auto; margin-right: auto; text-align: center;"><tbody>
<tr><td style="text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhQII73rq0CeU65k58m_bgfiHBpC7MnT0p3dwPUeHUD8YCtTmw69MciyW_mtOytV-p6kPhAy1ALTDcTlF4VikK3SFLJ6X5SASsatxedVvAU2v7E7m9c4h73pOH2Vp695-g3yMWcp3y3gUNy/s1600/autumnn+(2).jpg" imageanchor="1" style="margin-left: auto; margin-right: auto;"><img border="0" height="240" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhQII73rq0CeU65k58m_bgfiHBpC7MnT0p3dwPUeHUD8YCtTmw69MciyW_mtOytV-p6kPhAy1ALTDcTlF4VikK3SFLJ6X5SASsatxedVvAU2v7E7m9c4h73pOH2Vp695-g3yMWcp3y3gUNy/s320/autumnn+(2).jpg" width="320" /></a></td></tr>
<tr><td class="tr-caption" style="text-align: center;">لان سے نظر آنے والا زرد پتوں والا درخت</td></tr>
</tbody></table>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div class="separator" style="clear: both; text-align: right;">
</div>
احمد عرفان شفقتhttp://www.blogger.com/profile/08344288462877613544noreply@blogger.com4tag:blogger.com,1999:blog-4735105821402874410.post-34693416968691873662012-07-23T11:42:00.000+05:002012-12-26T18:01:22.312+05:00اے اللہ۔۔۔<div style="text-align: right;">آج تو نے مجھے ساری دنیاوی نعمتیں عطا کی ہیں،ممکن ہے کل تو یہ سب واپس لے لے۔آج تو نے مجھے بھرپور قوت اور صحت عطا کی ہے،ممکن ہے کل میرا جسم بیماریوں سے لاغر ہو جائے۔آج تو نے مجھے بہترین تعلقات عطا کیے ہیں،ممکن ہے کل میرے رشتہ دار، دوست احباب، ملنے والے، چاہنے والے مجھے چھوڑ جاہیں۔ آج تو نے مجھے مال و دولت اور وسائل سے نوازا ہے،ممکن ہے کل میں بالکل محروم اور غیرمحفوظ ہوجاوں اورمصائب اور مشکلات میں ایسا ِگھر جاوں کہ لوگ میرا مذاق اڑائیں اور میری تذلیل کریں ۔۔۔ <b>اس لیے تو مجھے توفیق دے کہ</b></div><div style="text-align: right;"><br />
</div><div style="text-align: right;">اپنے سکھ اور خوشحالی کے نشے میں کسی کو نظر انداز نہ کروں اور اپنے عزیز و اقارب کی محبت کو اپنا حق نہ سمجھنے لگوں۔ موزوں حالات کے بل بوتے پر میں اپنی ذات کو ناقابل شکست نہ سمجھنے لگوں اور غلط فہمی کا شکار نہ ہو جاوں کہ مجھے کچھ بھی نہ ہو گا۔ جب سب کچھ موافقت میں ہو رہا ہو تو اسے میں اپنی اہلیت اورعقلمندی کا نتیجہ نہ سمجھوں اور نہ یہ سمجھنے لگوں اے اللہ کہ مجھے تیری ضرورت ہی نہیں۔ اور اگر حالات ناسازگار ہوں، سب تدبیریں الٹی ہو جائیں اور سب کچھ ِچھن جائے تو اسے تیری نا مہربانی سمجھنے کی غلطی ہر گز نہ کروں۔</div><div style="text-align: right;"><br />
</div><div style="text-align: right;"> <b> کیونکہ اے اللہ ! </b>سب کچھ عطا کرنے میں اور واپس لینے میں بھی تیری حکمت پوشیدہ ہے، دونوں کے پس منظر میں تیرا کرم ہی کار فرما ہے۔ راستہ پھولوں سے سجا ہو یا کانٹوں سے بھرا ہو، میں اس پر چل کر تیری فرمانبرداری کا حق ادا کروں اور تیری رضا حاصل کر کے کامیابی کے ساتھ آخرت میں جا پہنچوں۔ آمین۔ </div>احمد عرفان شفقتhttp://www.blogger.com/profile/08344288462877613544noreply@blogger.com6tag:blogger.com,1999:blog-4735105821402874410.post-12574865698886801822011-12-29T15:40:00.000+05:002011-12-29T15:51:38.985+05:00پیسہ۔۔۔کتنا آخر؟<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on"><div style="text-align: right;"><br />
</div><div style="text-align: right;">ہماری زندگی کا وقت محدود ہے۔ اس محدود وقت کو لا محدود پیسہ کمانے کے لیے لگا چھوڑنا یہ کیسی بات ہے؟ اور اتنا زیادہ پیسہ کمانا جتنا ہم خرچ بھی نہ کر سکیں، اس کا فائد ہ؟ آپکا پیسہ تو وہی ہے نا جس کو آپ خرچ کر سکیں۔ خوش انسان تو وہ ہوتا ہے جس کی خواہشات اور ضرورتیں محدود ہوئیں نہ کہ وہ جس کے پاس ضرورت سے زیادہ پیسہ ہو۔ </div><div style="text-align: right;"><br />
اور یہ بھی کیسی بات ہے کہ ان لوگوں کے لیے کمائے چلے جاو جن کے ساتھ گزارنے کے لیے آپ کے پاس وقت ہی نہیں کیونکہ سارا وقت تو آپ اور زیادہ کمانے کے چکر میں رہتے ہو۔ جوانی میں آپ اپنی صحت سے بے پرواہ ہو کر روپے کے تعاقب میں صحت گنوا دیتے ہو۔ بوڑھے ہو کر اس روپے سے صحت واپس خریدنے کی کوشش کرتے ہو۔ لیکن تب بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ </div></div>احمد عرفان شفقتhttp://www.blogger.com/profile/08344288462877613544noreply@blogger.com6tag:blogger.com,1999:blog-4735105821402874410.post-13249122358540378002011-11-24T20:14:00.000+05:002016-03-29T22:17:25.281+05:00بابی یار Babi Yar<div style="text-align: right;">
</div>
<div style="text-align: right;">
وہی مکان، وہی گلیاں مگر وہ لوگ نہیں،</div>
<div style="text-align: right;">
یہی مراد تو ہے بستیاں اجڑنے سے۔ </div>
<div style="text-align: right;">
انسان کا بھی عجیب معاملہ ہے۔ پیدا ہوتا ہے تو وہ کچھ بھی نہیں ہوتا۔ بعد کی زندگی میں اپنے گمان کے مطابق کامیابی حاصل کرنے کے لیے سالہا سال چیزوں کے حصول اور کاموں کی تکمیل کی خاطر اندھا دھند بھا گتا رہتا ہے، اس بات سے بے خبر کہ اس دوران زندگی گزرتی جا رہی ہے۔</div>
<div style="text-align: right;">
پھر ایک دن غیر متوقع طور پر موت کا فرشتہ مقرر کیے ہوئے وقت سے نہ ایک سیکنڈ پہلے نہ ایک لمحہ بعد جان نکال لینے کے لیے آ پہنچتا ہے۔موت سے اس اپنے شب و روز میں مگن انسان کی یہ دنیا والی زندگی اختتام پذیر ہو جاتی ہے اور پھر وہ ایک اور ہی جہاں میں جا پہنچتا ہے جو اس دنیا ہیں رہتے ہوئے اس کی آنکھ سے اوجھل تھا اور جہاں اب اسے دائمی طور پر رہنا ہے۔</div>
<div style="text-align: right;">
بعض اوقات موت اجتماعی طور پر آن دبوچتی ہے۔ مثال کے طور پر جیسا کہ ستمبر ۱۹۴۱ میں یوکرین کے مقام پر ہوا۔ دوسری جنگ عظیم جاری تھی۔ ہٹلر کی نازی افواج ۱۹ ستمبر ۱۹۴۱ کو یوکرین کے دارلحکومت کیف (Kiev) پر قابض ہو چکی تھیں۔ ۲۶ ستمبر کو جرمن فوج کی طرف سے کیف کے یہو دیوں کے لیے شہر بھر میں ایک اعلانیہ چسپاں کیا گیا جس میں تمام یہودیوں کو کہا گیا کہ ۲۹ ستمبر کو وہ سب اپنا سامان، قیمتی اشیاء، نقدی، دستاویزات ہمراہ لیے،گرم کپڑے پہنے صبح آٹھ بجے شہر میں واقع یہودیوں کے قبرستان کے قریب جمع ہو جائیں۔ نہ پہنچنے والوں کو گولی سے اڑا دیا جائے گا۔</div>
<div style="text-align: right;">
نازیوں کو امید تھی کہ کوئی پانچ چھ ہزار یہودی اس دن وہاں اکٹھے ہو جائیں گے لیکن وہاں تو تیس ہزار سے زیادہ یہودی۔۔۔آدمی، عورتیں، جوان، بوڑھے،بچے۔۔۔ اپنے مال و متاع سمیت آن پہنچے۔ دراصل نازیوں نے اس قدر مہارت اور چالاکی سے سارا منصوبہ ترتیب دیا تھا کہ یہودی آخر وقت تک یہی سمجھتے رہے کہ ان کو وہاں اس لیے اکٹھا کیا جا رہا ہے تا کہ ان سب کی کسی اور علاقے میں نقل مکانی کی جائے جہاں وہ اکٹھے مل کر آباد ہو سکیں۔سب یہودی اسی گمان میں رہے کہ جلد ہی ان کو ریل گاڑیوں میں سوار کر دیا جائے گا۔</div>
<div style="text-align: right;">
جب تک حقیقت ان پر کھلی تو بہت دیر ہو چکی تھی۔جب ان کو مشین گنز چلنے کی ترتراہٹ سنائی دینی شروع ہوئی تو تب کسی کے لیے بھی جان بچا کر فرار ہونا ممکن نہیں رہا تھا۔انتہائی منظم طریقے سے تمام یہودیوں سے ان کا سامان لے لیا گیا اور ان کا تمام لباس اتروا لیا گیا۔پھر دس دس یہودیوں کو فوجی بابی یار کی طرف ہانک کر لے جاتے جہاں ان کو گولیوں سے اڑا دیا جاتا۔بابی یار کیف میں واقع ایک گھاٹی کا نام ہے جو تقریباً ۱۵۰ میٹر لمبی، ۳۰ میٹر چوڑی اور ۱۵ میٹر گہری ہے۔دو دن میں ۳۳۷۷۱ یہودی گولیاں مار کر ختم کر دیے گئے اور بابی یار میں ان کی لاشوں کے انبار لگا دیے گئے۔ <br />
<br />
اور رہا انفرادی موت کا سلسلہ تو وہ تو ہمارے ارد گرد چلتا ہی رہتا ہے۔ انسان اپنے خاندان والوں کو اور دوست احباب کو فوت ہوتے دیکھتا تو ہے لیکن کسی نہ کسی طرح اپنے لیے اس کے دل میں یہی گمان رہتا ہے کہ یہ تو دوسرے لوگ ہیں جوفوت ہوتے ہیں، میں نے تو ابھی زندہ ہی رہنا ہے۔میں تو ابھی صحتمند ہوں،میرے تو بہت سے منصوبے ابھی ایسے ہیں جن کو میں نے پورا کرنا ہے، میں تو ایک اہم انسان ہوں۔۔۔یہ گھر یا یہ ادارہ میں ہی تو چلا رہا ہوں۔میں ابھی فوت نہیں ہوسکتا۔</div>
<div style="text-align: right;">
جبکہ حقیقت یہ ہے کہ موت بہت ہی چپکے سے آ جاتی ہے۔ضروری نہیں کہ کوئی بیمار ہی ہو یا بدحال ہو تو ہی مرتا ہے۔ </div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
موت کے ساتھ ہی توبہ کا دروازہ بند ہو جاتا ہے اور اعمال کا سلسلہ موقوف ہو جاتا ہے۔یہ جو وقت ہمیں ملا ہوا ہوتا ہے یہ بس ایک مہلت ہی ہے۔سٹیو جابز کا یہ کہا Your time is limited بہت قابل غور ہے۔ لیکن جیتے جی ہمیں اس بات کا احساس ہی نہیں ہوتا۔ نہ ہی یہ بات یقین میں آ تی ہے کہ زندگی میں جو کچھ ہم کر رہے ہیں، موت کے بعد اس سب کے لیے ہمیں اپنے خالق کے ہاں جواب دہ ہونا ہے اور پھر سزا اور جزا کا سلسلہ ہے۔ہمارا دل یہ مان کے ہی نہیں دیتا کہ دنیا کا یہ سلسلہ عارضی ہے۔۔۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
</div>
<div style="text-align: right;">
وہ وقت،وہ محفلیں،وہ شگوفتہ مزاج لوگ</div>
<div style="text-align: right;">
موج زمانہ لے گئی جانے کہاں کہاں </div>
احمد عرفان شفقتhttp://www.blogger.com/profile/08344288462877613544noreply@blogger.com5tag:blogger.com,1999:blog-4735105821402874410.post-66121476896285483232011-11-14T20:43:00.000+05:002011-12-03T11:17:35.219+05:00زندگیمڑے ہوئے پتوں پہ<br/> بوندوں کی کھنک۔۔۔<br/>زیروبم،<br/>لاجونتی،<br/> مدھ بھری،<br/> ارغوانی زندگی۔<br/><br/>زندگی۔۔۔<br/> تتلی،<br/> ترنگ،<br/> سوہنی<br/>سہانی زندگی۔احمد عرفان شفقتhttp://www.blogger.com/profile/08344288462877613544noreply@blogger.com4tag:blogger.com,1999:blog-4735105821402874410.post-5528295354633214442011-06-23T20:23:00.000+05:002016-03-29T22:19:42.764+05:00ہوا مارنا<div style="text-align: right;">
کسی کا حق مارنا، کسی کے پیسے مارنا وغیرہ جیسی غلط کاریاں تو آپ سنتے ہی رہتے ہیں ۔آج میں آپکی توجہ ایک اور اہم معاشرتی مسئلے کی جانب مبذول کروانا چاہتا ہوں۔ وہ ہے ہوا مارنا۔ آپ اپنی گاڑی کسی سروس سٹیشن پر لے کر جاتے ہیں کہ اس کی دحلائی ستھرائی کروا لیں تو وہ لوگ کاروائی کا آغاز ہوا مارنے سے کرتے ہیں۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
گاڑی کے چاروں دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور ایک صاحب ایک پائپ پکڑ کر اس میں سے نکلتی تیز رفتار ہوا گاڑی کے فرش اور تمام کونوں کھدروں میں مارنا شروع کر دیتے ہیں۔اب اپنے گمان کے مطابق تو وہ گاڑی کی صفائی کر رہے ہوتے ہیں لیکن حقیقت میں جو ہو رہا ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ گاڑی کے فلور میٹس پر پڑی تمام گرد و دیگر گند بلا اڑ اڑ کر ڈیش بورڈ اور اطراف میں جا بکھرتا ہے۔ اس عمل سے گاڑی کا اندر صاف ہونے کی بجائے اور گندا ہو جاتا ہے۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
سوال یہ ہے کہ وہ لوگ ہوا مارنے کی بجائے ویکیوم کلینر کا استعمال کیوں نہیں کرتے؟ ویکیوم کلینر گند بلا کو دور دور تک اڑانے کی بجائے اپنے اندر کھینچ لے گا جو کہ گاڑی کے اندر کی صفائی کا ایک زیادہ منطقی طریقہ ہے۔ اور یہ بھی نہیں کہ ویکیوم کلینر خریدنے کے لیے کوئی لاکھوں روپے درکار ہوتے ہیں۔ نہ ہی یہ ہے کہ ویکیوم کلینر ایسے مقاصد کے لیے کسی بھی سروس سٹیشن پر استعمال نہیں ہو رہے۔ دبئی میں دیرہ کے علاقے میں ایک دفعہ میں نے دیکھا تھا کہ وہ لوگ گاڑی کے اندر ہوا نہیں مار رہے تھے۔ ویکیوم کلینر استعمال کر رہے تھے۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
اب سروس سٹیشنز کی بات ہو رہی ہے تو ان سے متعلق ایک اور رونا بھی رو ہی لیا جائے: گاڑی کے پچھلے شیشے کو سردیوں میں دھندلا جانے سے بچانے کے لیئے ڈی فراسٹر لگا ہوتا ہے جس کو ہم ڈیش بورڈ میں لگے ایک بٹن سے آن آف کر لیتے ہیں۔ لیکن یہ کارآمد سسٹم بہت جلد کام کرنا چھوڑ دیتا ہے اور اس کا سہرا بھی سروس سٹیشن والوں کے سر ہے۔ان کے بے خبر لڑکے بالے صفائی کے زعم میں پچھلے شیشے کے اندر کی طرف اس قدر زور سے دبا دبا کر کپڑا لگاتے ہیں کہ وہاں لگی ڈی فراسٹر کی سٹرائپس ان کے دباو کی تاب نہیں لا سکتیں اور کہیں نہ کہیں سے کٹ جاتی ہیں۔اب یا تو گاڑی بنانے والے ان سٹرائپس کو شیشے کے اندر یا باہر لگانے کی بجائے شیشے کے درمیان میں لگاتے جہاں کوئی چیز ان سے مس نہ ہوتی۔ لیکن ایسا کرنا گاڑی کی قیمت میں اضافے کا باعث بنتا۔ یا پھر یہ ہے کہ سروس سٹیشن والے ہی کچھ احساس اور درد مندی اس سلسلے میں پیدا کر لیتے۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
لیکن چونکہ یہ دوسرا امکان پہلے والے سے بھی زیادہ کم ہے اس لیے یہی کیا جا سکتا ہے کہ سروس سٹیشن والوں کو کہہ دیا جائے کہ بھائی پچھلا شیشہ اندر سے صاف نہ کرنا۔ لیکن آپ کہہ کر دیکھ لیں۔ آپ ان کی جتنی بھی منت سماجت کر لیں اس سلسلے میں، آپ کو تو وہ لڑکے کہہ دیں گے کہ اچھا جی نہیں کرتے لیکن جیسے ہی آپ کا دھیان ادھر ادھر ہوا، وہ لوگ عادت سے مجبور ہو کر اندر سے شیشے کی رگڑائی کر ہی ڈالیں گے۔ اب اس کا کیا کیا جائے،جبکہ منقطع شدہ ڈی فراسٹر کی مرمت بھی عام حالات میں آسان نہیں۔</div>
احمد عرفان شفقتhttp://www.blogger.com/profile/08344288462877613544noreply@blogger.com8tag:blogger.com,1999:blog-4735105821402874410.post-57156787950153526402011-05-30T19:23:00.000+05:002011-12-03T11:17:34.917+05:00گاڑی تیز چلانامجھے وہ لوگ بالکل اچھے نہیں لگتے جو گاڑی تیز چلاتے ہیں۔ اسی لیے میں ان کو اوورٹیک کر لیتا ہوں۔احمد عرفان شفقتhttp://www.blogger.com/profile/08344288462877613544noreply@blogger.com11tag:blogger.com,1999:blog-4735105821402874410.post-37102672187525942472011-05-23T03:21:00.000+05:002016-03-29T22:24:31.885+05:00بری لت<div style="text-align: right;">
یہ بھی ایک عجیب مصیبت ہوتی ہے بعض لوگوں کے ساتھ۔کسی کے گھر جو جاتے ہیں مہمان بن کر تو وہاں جا کر میز بان کو کہہ کر ٹی وی پر اپنی پسند کا چینل ٹیون کروا لیتے ہیں اور پھر گھنٹوں بیٹھ کر اپنے من چاہے ڈرامے دیکھتے رہتے ہیں۔ میز بان بیچارہ ساتھ میں مفت میں ٹنگا رہتا ہے۔ سوچتا رہتا ہے کہ بھئ آپ میرے گھر مجھ سے ملنے، مجھ سے باتیں کرنے کے لیے آئے تھے یا اپنے گھر کے ٹی وی بینی کے معمولات پورے کرنے؟ یہ میرا گھر ہے یا تھیٹر ہے؟وغیرہ۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
اور پھر کچھ مہمان تو آپ کو کہہ کر اپنے چینل ٹیون کروا لیتے ہیں لیکن کچھ لوگ ایک قدم آگے ہوتے ہیں۔ وہ آپ سے پوچھے بغیر، آپ کو بتائے بغیر سیدھا ریموٹ پکڑتے ہیں اور آپ کے ٹی وی پر اپنی پسند کے چینل ٹیون کر کے دیکھنے بیٹھ جاتے ہیں۔ کمال ہے نا۔ </div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
یہ کئی طرح سے ایک نامناسب حرکت ہے۔ ایک تو میزبان اوراسکے اہل خانہ شدت سے محسوس کرتے ہیں کہ انہیں نظر انداز کیا جا رہا ہے اور یہ کہ مہمان کا مطمع نظر ٹی وی تھا نہ کہ ان سے ملنا۔ دوسرا میزبان اس بات سے بھی خفت محسوس کرتا ہے کہ جو چینل ہم لوگ نہیں دیکھتے وہ ہمارے ہی گھر میں بیٹھ کر دھونس سے ہم پر ٹھونسے جا رہے ہیں۔بھئی اگر آپ ہمارے گھر آ ہی گئے ہو تو اپنی ٹی وی کی لت کو کچھ دیر کے لیے خیر باد کہہ دو اور ہم سے بات وات کر لو۔عجب بدتہذیبی ہے :(</div>
احمد عرفان شفقتhttp://www.blogger.com/profile/08344288462877613544noreply@blogger.com10tag:blogger.com,1999:blog-4735105821402874410.post-40846431992924103422011-03-16T03:18:00.002+05:002016-03-29T22:32:12.640+05:00بدلہ لوٹ آیا<div style="text-align: right;">
کل مورخہ ۱۴ مارچ کراچی سٹاک ایکسچینج میں تقریباً دو سال کے وقفے کے بعد بدلہ لوٹ آیا۔ سادہ الفاظ میں بدلہ بازار حصص میں رائج اس نظام کو کہتے ہیں جو لوگوں کو ادھا ر پر شیئرز خریدنے کا امکان فراہم کرتا ہے۔ یعنی کوئی شخص گھر سے مثلاً ایک لاکھ ر وپیہ اگر لے کر آیا ہے تو بدلے میں چار پانچ لاکھ روپے کے شیئرز خرید سکتا ہے۔یہ جو اضافی رقم اسے دستیاب ہوتی ہے اس پر اسے سود ادا کرنا ہوتا ہے۔بالکل جیسے بینک سے یا مہاجن سے ادھار لیتے وقت دینا ہوتا ہے۔یہ بدلہ وہی چیز ہے جسے بین الاقوامی منڈیوں میں Margin Tradingیا Leverage کہا جاتا ہے۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
بدلے پر کام کرنے والوں کا گمان یہ ہوتا ہے کہ اصل سرمائے سے زیادہ مالیت کے حصص خریدنے سے یہ ہو گا کہ جب اس شیئر کی قیمت اوپر جائے گی تو وہ زیادہ منافع کما سکیں گے۔ یعنی وہ اگر اپنے اصل ایک لاکھ روپے سے ہی کام کرتے تو دس روپے مالیت کے دس ہزار شیئرز ہی خرید سکتے تھے جن کے دام اگر بارہ روپے فی شیئر ہو جاتے تو ان کو صرف بیس ہزار روپے منافع ہوتا۔ لیکن بدلے کے ذریعے وہ مزید چار لاکھ کے یعنی اب کل پانچ لاکھ روپے کے پچاس ہزار شیئر ز خرید سکتے ہیں جن کا دام اگر دو روپے بڑھ جائے تو ان کو بیس ہزار کی بجائے ایک لاکھ کا منافع ہو گا۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
جو حقیقت وہ نظر انداز کر دیتے ہیں وہ یہ ہے کہ ادھار لے کر خریدے گئے شیئرز کی مقدار بڑھا لینے سے اگر قیمت بڑھ جانے کی صورت میں منافع بڑھ جاتا ہے تو قیمت گھٹ جانے کی صورت میں نقصان بھی تو پانچ گنا زیادہ ہو جائے گا۔ یعنی اگر اپنے ایک لاکھ روپے کے اصل سرمائے سے کام کرتے تو دس ہزار شیئرزپر دو روپے کی کمی کی صورت میں نقصان بیس ہزار کا ہوتا اور وہ باقی اسی ہزار لے کر گھر لوٹ آتے۔ لیکن بدلے میں لیئے گئے پچاس ہزار شیئرز کی صورت میں بھاو دو روپے گھٹ جانے کی صورت میں نقصان ایک لاکھ کا ہوگا اور پھر منہ لٹکائے خالی ہاتھ گھر آئیں گے۔ اور جو قیمت اگر تین روپے گھٹ گئی تو گھر سے مزید پچاس ہزار روپے لا کر بھی دینے ہوں گے۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
کیا کہا؟ آپ تب نقصان پر اپنے شیئرز نہ بیچیں گے اور قیمت واپس بڑھنے کا انتظار کریں گے؟ ارئے جناب ادھاریئے کی انتظار کرنے کی سکت بہت ہی کم ہوتی ہے۔ بازار طویل مندے میں چلی جائے تو قیمت واپس آتے آتے ہی آتی ہے جبکہ اس دوران ہر کلیرنگ میں سود لگ لگ کر آپکی قیمت خرید اوپر ہی اوپر جاتی رہتی ہے۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
اور یہ جو غیر متوقع مندے شیئر بازار میں آجاتے ہیں وہ تو پھر جان ہی لے کر جاتے ہیں۔ مثلاً جاپان کی سٹاک مارکیٹ کو دیکھیں۔ کس کو معلوم تھا کہ وہاں ایسا سونامی آئے گا جو معیشت کی چولیں ہلا کر رکھ دے گا؟ اب دیکھیئے جمعہ والے دن یعنی ۱۱ مارچ کو ٹوکیو سٹاک ایکسچینج کی Nikkei۲۲۵ انڈیکس ۱۰۲۵۴ پر بند ہوئی لیکن پھر اگلے ٹریڈنگ دن پیر کو چھ فیصد کی کمی کے بعد ۹۶۲۰ پر بند ہوئی۔ ایک ہی دن میں مارکیٹ کی کل مالیت میں ۲۸۶ ارب ڈالر کی کمی واقع ہوئی۔ اور آج منگل کے دن یہ انڈیکس ایک ہزار سے بھی زائد پوائنٹس کی گراوٹ کے بعد مزیددس فیصد نیچے ۸۶۰۵ پر بند ہوئی۔ دن کے دوران مارکیٹ ۸۲۲۷ تک بھی آ گئی تھی۔ اب آپ بتایئے اس قسم کی صورتحال میں ادھار پر خریدے گئے حصص کو لے کر کوئی کب تک قیمتوں کی بحالی کا انتظار کر سکے گا؟</div>
<div style="text-align: right;">
اس وقت پاکستان میں رات کے ساڑھے نو بجے ہیں۔ وال سٹریٹ میں ٹریڈنگ شروع ہوئےکوئی تین گھنٹے گزر چکے ہیں۔ ڈو جونز ۱۸۷ پوائنٹس اب تک کھو چکی ہے۔ابھی بازار کو ساڑھے تین گھنٹے اور چلنا ہے۔</div>
<div style="text-align: right;">
اب ایک نظر اپنی مارکیٹ پر بھی ڈال لیتے ہیں۔ کراچی سٹاک ایکسچینج کی ۱۰۰ KSE انڈیکس آج ۲۱۶ پوائنٹس کی کمی کے بعد ۱۱۸۲۹ پر بند ہوئی ۔ دن کے دوران یہ ۱۲۰۰۰ سے بھی اوپر گئی تھی۔ آج ساڑھے پانچ ارب روپے سے زائد مالیت کے کوئی ساڑھے تیرہ کروڑ شیئرز کا کاروبار ہوا۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
اچھا ایک کام کرتے ہیں۔ کچھ پیپر ٹریڈنگ کرتے ہیں۔ یعنی اصل بازار میں اصل رقم لگائے بنا بس کاغذی طور پر کچھ کاروبار کرتے ہیں۔ ہم پاکستان کی قومی فضائی کارپوریشن پی آئی اے کے کچھ شیئرز لیں گے اور پھر آنے والے دنوں میں اس شیئر کے اتار چڑھاو پر نگاہ رکھیں گے اور انشاء اللہ دیکھیں گے کہ ہمیں کیا نفع نقصان ہوتا ہے۔ اس سے ہم کو سٹاک مارکیٹ کے کاروبار کی بابت کچھ آگاہی ملے گی۔ </div>
<div style="text-align: right;">
پی آئی اے کا سمبل PIAAہے۔ آج اس کے تین لاکھ گیارہ ہزار حصص کا لین دین ہوا اور بند بھاو 2.93 رہا۔ ہم لکھ لیتے ہیں کہ آج ہم نے اس کارپوریشن کے 20000 شیئرز 2.85 پیسے فی شیئر کے حساب سے لیے جن کی مالیٹ پانچ پیسے کمیشن شامل کرنے کے بعد 58000 روپے بنی۔ اب دیکھتے ہیں ہماری اس سرمایہ کاری کا نتیجہ اگلے ۱۰۰ دنوں میں کیا رہتا ہے۔چلیں۔</div>
احمد عرفان شفقتhttp://www.blogger.com/profile/08344288462877613544noreply@blogger.com2tag:blogger.com,1999:blog-4735105821402874410.post-54720634297828606872011-01-28T21:22:00.000+05:002016-03-29T22:34:19.346+05:00مرد بڑے ظالم ہوتے ہیں<div style="text-align: right;">
ساری زندگی عورت کو کنفیوژن میں ہی رکھتے ہیں۔کبھی تو اس کو لگتا ہے کہ میرا میاں بس مجھ کو ہی دل و جان سے چاہتا ہے اور کبھی اس کو یوں لگنے لگتا ہے کہ اس کا شوہر کسی دوسری عورت سے بھی محبت کرتا ہے۔آدمی کے طرز عمل کے مد و جزر عورت کے ان دو خیالات کا باعث بنتے ہیں۔وہ اندرونی طور پر اسی ادھیڑ بن میں سالہا سال گزار دیتی ہے۔</div>
احمد عرفان شفقتhttp://www.blogger.com/profile/08344288462877613544noreply@blogger.com11tag:blogger.com,1999:blog-4735105821402874410.post-43921945903827139352011-01-07T19:13:00.000+05:002016-03-29T22:36:32.939+05:00پنڈی ایگزٹ<div style="text-align: right;">
یوں تو مری و گلیات میں کرنے کا نیا تو کچھ نہیں ہوتا کہ ہر بار پہلے والی سرگرمیاں، پہلے والے مناظر ہی دہرانے کو ہوتے ہیں لیکن پھر بھی اس جگہ کی کچھ کشش ضرور ہے۔ اور لاہور سے جاتے آتے ہوئے موٹر وے پہ بھی کچھ خاص کرنے کو نہیں ہوتا سوائے اس کے کہ آپ ڈیش بورڈ پہ بدلتے اعداد و شمار سے محظوظ ہوتے رہیں ۔۔۔۳۳۰۰ آرپی ایم پہ گاڑی کی رفتار ۱۲۰ کلومیٹرفی گھنٹہ ہوتی ہے، گاڑی کی رفتار ۱۰۰ ہو تو انجن کی رفتار ۲۷۰۰ ہو جاتی ہے اور ۱۴۰ کی غیر قانونی رفتار کے لئے پورے ۴۰۰۰ چکر فی منٹ درکار ہوتے ہیں۔ لاہور سے فُل کرایا گیا فیول ٹینک جب گیج پہ نصف ظاہر ہونے لگےتو جان لینا ہے کہ بھیرہ قیام و طعام آ نے کو ہے، آپ بیٹھے انجن کے صوتی مدوجذر سے محظوظ ہوتے رہیں وغیرہ وغیرہ۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
پچھلے سال سکول کی گرمیوں کی چھٹیوں میں نتھیاگلی جانے کا پروگرام بنا۔ اس دفعہ پہلے ایک رات راولپنڈی میں رکنا تھا۔ 29 جولائی کو لاہور سے روانہ ہوئے۔ راستے میں ہمیشہ کی طرح بھیرہ سروس ایریا سے پیٹرول ٹینک پھر سے فل کروایا۔ پھر جب سالٹ رینج کے پہاڑی سلسلے میں داخل ہوئے تو وہاں بارش ملی۔ اس سے پہلے اس جگہ اتنے خوبصورت مناظر دیکھنے کو نہیں ملے تھے۔ بادل بہت نیچے آئے ہوئے تھے۔ بارش بھی خاصی تیز تھی۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
اسلام آباد ٹال پلازہ میں E Toll کی سکرین پر لکھا آیا کہ 235 روپے منہا کیے گئے ہیں۔ مجھے یوں محسوس ہوا کہ جب فروری میں مری جاتے ہوے یہاں سے گزرے تھے تو شاید کچھ کم رقم چارج ہوئی تھی۔ راولپنڈی میں قیام <a href="http://maps.google.com/maps?f=q&source=s_q&hl=en&geocode=&q=Pakistan+Town,+Rawalpindi,+Punjab,+Pakistan&sll=37.0625,-95.677068&sspn=32.335236,56.513672&ie=UTF8&hq=&hnear=Pakistan+Town,+Rawalpindi,+Punjab,+Pakistan&ll=33.601627,73.033805&spn=0.008293,0.013797&z=16" target="_blank" title="qasim market rawalpindi">قاسم مارکیٹ</a> کے قریب تھا جہاں ہم سہ پہر کےوقت پہنچ گئے۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
اس سے پہلے موٹر وے سے ہمیشہ سیدھے کشمیر ہائی وے کو چلے جایا کرتے تھے۔ یہ پہلی بار تھی کہ موٹر وے کے بعد راولپنڈی جانا تھا۔ میرا خیال تھا کہ موٹر وے سے آنے والوں کے لیے جیسے جی ٹی روڈ انٹر چینج پر بائیں کو ایک سڑک ٹیکسلا، واہ، پشاور جانے والوں کے لیے بنی ہوئی ہے اسی طرح راولپنڈی جانے والوں کے لیے بھی کوئی ایسا ہی مخرج ہو گا ۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
لیکن مجھے ایسی کوئی سڑک نظر نہیں آئی۔ اب یا تو میں وہی پشاور والی ایگزٹ سے ٹیکسلا، واہ کی طرف مڑ جا تا اور پھر کسی U ٹرن سے گھوم کر اپنا رخ پنڈی کی جانب کرتا۔ یا پھر یہ سمجھ میں آئی کہ میں گوٖلڑہ چوک کی جانب چلتا رہوں اور وہاں سے دائیں مڑ کر گولڑہ روڈ سے جی ٹی روڈ پر جا ملوں۔ میں نے یہ دوسرا والا آپشن ہی اپنایا۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
مجھے لگتا تھا کہ ایسا ہو نہیں سکتا کہ راولپنڈی جیسے مین شہر کے لیے جی ٹی روڈ انٹر چینج پر کوئی ایگزٹ نہ ہو۔ یقیناً ہو گی لیکن مجھے نظر نہیں آئی ہو گی۔ لیکن پنڈی پہنچ کر دریافت کرنے پر یہی بتایا گیا کہ واقعی ایسی کوئی ایگزٹ نہیں ہے اور لوگ بائیں کو جا کر یو ٹرن لے کر ہی راولپنڈی کو آتے ہیں۔ یہ بات تب بھی مجھے انتہا ئی نا قابل یقین سی لگی۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
میں حیران ہوں کیا واقعی موٹر وے کے اختتام پر دائیں جانب پنڈی کو جانے کے لیے کوئی ایگزٹ نہیں ہے؟</div>
احمد عرفان شفقتhttp://www.blogger.com/profile/08344288462877613544noreply@blogger.com4tag:blogger.com,1999:blog-4735105821402874410.post-1436687500276250442011-01-05T21:39:00.000+05:002016-03-30T10:14:25.577+05:00ہاں یہ وہی دسمبر تھا۔۔۔<div style="text-align: right;">
”دیکھو یہ جو دسمبر ابھی گزرا ہے نا یہ وہی دسمبر تھا جس کا تمہیں انتظار تھا۔اوریہ وہی سردیاں ہیں جن کا ذکر کر کے تم اتنا کچھ کہتے تھے۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
تم کتنے سالوں سے ہر سال یہی کہتے ہو کہ بس ذرا موسم بدل لینے دو، یہ گرمیاں یہ حبس جا لینے دو، سردیاں آ لینے دو بس پھر دیکھنا۔۔۔جتنے رکے پڑے کام ہیں، میں سارے کے سارے ختم کر دوں گا۔</div>
<div style="text-align: right;">
مگر دیکھ لو، آج تک ایسا کچھ ہو نہیں سکا۔ سردیاں ہر سال آتی ہیں اور آ کر گزر جاتی ہیں۔ تم ہر سال کہتے ہو بس دسمبر آ لینے دو ذرا، سردی ذرا صحیح سے شروع ہو لینے دو، میں اگلا سال چڑھنے نہیں دوں گا۔ یکم جنوری سے پہلے پہلے سب التوا میں پڑئےکام، ہاں ہاں سب کے سب تم دیکھنا، میں انشاءاللہ اب کے نمٹا دوں گا۔</div>
<div style="text-align: right;">
لیکن ہوتا کیا ہے۔۔۔گرمیوں میں تمہیں گرمی تنگ کرتی ہے۔بس اے سی کی ہوا دل کو بھاتی ہے۔سردیوں میں تمہیں سردی ستاتی ہے، گرم لحاف سے نکلنے کا تمہارا دل ہی نہیں کرتا۔خزاں میں ناسٹیلجیا تمہارےدل میں گھر کر لیتا ہے اور بہار میں رومانس تمہارے جسم و جاں میں رواں دواں ہو جاتا ہے۔ اور یوں سارا سال تم یہی انتظار کرتے رہتے ہو کہ موسم ذرا معتدل ہو جا ئے تو بس پھر ایک ساتھ ہی سارے کر دیے جانے کے منتظر کام میں سرانجام دے ڈالوں گا۔</div>
<div style="text-align: right;">
میں تمہیں سچ بتاوں یہ محض خود فریبی کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے۔تمہیں یاد ہو گا چند سال پہلے جب تمہارے ایک کزن کی وفات ہوئی تھی تو تم تھوڑا ساچونکے تھے۔کیونکہ وہ عمر میں تم سے کوئی زیادہ بڑا نہیں تھا۔تمہارے ایج گروپ کا ہی تھا۔ تب تم تھوڑا ڈرے تھے کہ ایک دن اچانک تم بھی اسی طرح اس دنیا کی زندگی کو خیر باد کہہ دو گے اور تمہیں آخرت اور اس دنیا سے متعلقہ پینڈنگ کام کرنے کا موقعہ ہی نہیں ملے گا۔ تب تم نے اپنےآپ سے کہا تھا کہ یہ سب کام تم کو اب فوراً نمٹا دینے چاہییں۔لیکن تب بھی تم نے ڈیڈ لائن اپنے آپ کو جو دی تھی وہ اُس سال کے دسمبر ہی کی تھی۔</div>
<div style="text-align: right;">
دیکھو میں تو تمہیں یہی کہوں گی کہ تم دائمی سستی اور بے عملی کی یہ روش اب ترک کر ڈالو۔ اب کچھ کر ڈالو۔ یہ جو تمہارے سالہا سال سے التوا میں پڑے کام ہیں یقین کرو یہ کوئی بہت زیادہ وقت طلب نہیں ہیں۔ کچھ تو بالکل ہی چند گھنٹوں میں پایہ تکمیل تک پہنچ جانے والے ہیں۔ اگر تم آج سے ان کاموں کو ایک ایک کر کے کرنا شروع کر ڈالو تو سچی بات ہے ایک آدھ ہفتے میں یہ سب اختتام پذیر ہو جائیں گے۔ تمہا رے اندر کا ایک بوجھ، ایک احساس جرم ختم ہو جا ے گا۔تم خود کو بہت ہلکا پھلکا محسوس کرو گے۔</div>
<div style="text-align: right;">
میری مانو۔۔۔پروگرام اور شیڈول بنانے ترک کر دو۔ جو کرنا ہے وہ کرنا شروع کر دو۔آگے تمہاری مرضی۔“</div>
احمد عرفان شفقتhttp://www.blogger.com/profile/08344288462877613544noreply@blogger.com3tag:blogger.com,1999:blog-4735105821402874410.post-61088503775883092652010-12-13T15:09:00.000+05:002016-03-30T10:15:07.048+05:00ہر خاتون...<div style="text-align: right;">
ہر خاتون توقع رکھتی ہے کہ اس کی بیٹی اس آدمی سے بہتر آدمی سے شادی کرے گی جس سے کہ خود اس نے کی اور ساتھ میں یہ یقین بھی رکھتی ہے کہ اس کے بیٹے کو بیوی اس عورت سے بہتر مل ہی نہیں سکتی جو برخوردار کے باپ کو ملی تھی۔</div>
احمد عرفان شفقتhttp://www.blogger.com/profile/08344288462877613544noreply@blogger.com19tag:blogger.com,1999:blog-4735105821402874410.post-78714475568576202202010-12-08T14:36:00.001+05:002011-12-03T16:38:05.289+05:00آپ سب کو نیا اسلامی سال 1432 مبارک ہواللہ ہمارے گناہ معاف کرے اور ہمارے لیئے آسانیاں پیدا فرمائے<br />
آمیناحمد عرفان شفقتhttp://www.blogger.com/profile/08344288462877613544noreply@blogger.com4tag:blogger.com,1999:blog-4735105821402874410.post-20145549358828446772010-12-01T15:48:00.000+05:002016-03-31T12:16:14.366+05:00سیارہ میں شمولیت دوبارہ<div style="text-align: right;">
فری ہاسٹنگ پر منتقل ہونے کے چند روز بعد ایک دن جو اپنے بلاگ کا دیدار کرنے کی خواہش کی تو سب ندارد پایا۔ دل میں فوراْ یہ خیال کوندا کہ لو بھئ یہ وہ گھڑی آن ہی پہنچی جس کے لیے سب خیر خواہوں نے تاکید کی تھی کہ بیک اپ لینے میں کبھی سستی نہ کرنا۔ میں بھا گا بھاگا عثمان اور یاسر کے بلاگز پر پہنچا تو وہاں سب خیریت پائی۔ تب جانا کہ مسئلہ اکراس دی بورڈ نہیں ہے بلکہ صرف میرے بلاگ کے ساتھ ہی ہے۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
پھر جیسا کہ انسانی ذہن کی روش ہے، طرح طرح کے خیالات و خدشات دل میں امنڈنے لگے۔ کوشش کر کے ان کی بریک لگائی کہ بھا ئی تھوڑا رک کے دیکھ تو لو کہ صورتحال واقعی اتنی گھمبیر ہے بھی یا نہیں جتنی کہ دکھائی دے رہی ہے۔تب دل کو یہ سوچ کر قدرے قرار ہوا کہ گاہے بگاہے تو پیڈ ہاسٹنگ سروس بھی تھوڑی دیر کے لیے ڈاون ہو جاتی ہے۔ سو ہو سکتا ہے یہ اسی قسم کی چیز ہو۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
ایسا ہی تھا۔ کچھ دیر کے بعد بلاگ ٹھیک ٹھیک چلنا شروع ہو گیا۔ اوسان بحال ہوئے تو فوراْ Byethost والوں سے دل ہی دل میں ان ناشائستہ خیالات کی معذرت کی جو ان کی بابت ذہن میں آ گئے تھے۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
اور آج ورڈ پریس کے ڈیش بورڈ پر<span style="color: red;"><strong> ورژن 3.0.2 </strong></span>کی دستیابی کا مژدو سنایا جا رہا تھا۔ جب آٹو میٹک اپگریڈ کی کوشش کی تو کامیابی نہ ہوئی۔ حیرت ہوئی کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے۔ wp-content میں جا کر upgrades نامی ڈائریکٹری کو ڈیلیٹ بھی کر کے دیکھ لیا مگر کچھ نہ ہوا۔ لیکن پھر جب تمام پلگ انز کو deactivate کر کے ورڈ پریس اپگریڈ کرنے کی کوشش کی تو الحمدو للہ پلک جھپکتے میں ہو گیا۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
گویا پیڈ ہاسٹنگ سے فری ہاسٹنگ پر منتقلی کے بعد جملہ معاملات خوش اسلوبی سے سرانجام پا رہے ہیں۔ بس ایک کام ہے جو کہ ہوتا دکھائی نہیں دے رہا اور ہو ہے<a href="http://www.urduweb.org/planet/" target="_blank" title="urdu planet"> سیارہ </a>میں بلاگ کی نئے ڈومین کے ساتھ شمولیت۔ ان کو ایک ایمیل کی تھی کہ براہ کرم بلاگ کے یو آر ایل اور فیڈ ایڈریس میں ترمیم کر لیں۔ اس کے علاوہ سیارہ میں شمولیت کا form بھی از سر نو submit کروایا تھا لیکن تا حال شنوائی نہیں ہوئی۔ چلو، دنیا امید پر قائم ہے۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<a href="http://urdu.gmkhawar.net/" target="_blank" title="urdu sab rang">اردو کے سب رنگ</a> نے ترمیم کی درخواست پر انتہائی جلدی عملدرآمد کر دیا تھا ۔ ان کا میں ممنون ہوں۔</div>
احمد عرفان شفقتhttp://www.blogger.com/profile/08344288462877613544noreply@blogger.com30tag:blogger.com,1999:blog-4735105821402874410.post-48764079676939871402010-11-21T23:18:00.002+05:002011-12-03T17:48:32.269+05:00دیار غیر کو ہجرتڈیلی ایکسپریس میں محترمہ شیریں حیدر کا<a href="http://www.express.com.pk/epaper/PoPupwindow.aspx?newsID=1101093411&Issue=NP_LHE&Date=20101107" target="_blank"> یہ مضمون پڑھا</a>۔۔۔<br />
<br />
کیا واقعی حقیقت ایسی ہی ہے؟احمد عرفان شفقتhttp://www.blogger.com/profile/08344288462877613544noreply@blogger.com7tag:blogger.com,1999:blog-4735105821402874410.post-73275062653931583312010-11-11T16:36:00.000+05:002011-12-03T11:14:15.642+05:00شارع الشیخ زید پر گاڑی چلانا...راہنما ویڈیو<object classid="clsid:d27cdb6e-ae6d-11cf-96b8-444553540000" width="550" height="385" codebase="http://download.macromedia.com/pub/shockwave/cabs/flash/swflash.cab#version=6,0,40,0"><param name="allowFullScreen" value="true" /><param name="allowscriptaccess" value="always" /><param name="src" value="http://www.youtube.com/v/Uzrf7F1rbgY?fs=1&hl=en_GB&rel=0" /><param name="allowfullscreen" value="true" /><embed type="application/x-shockwave-flash" width="550" height="385" src="http://www.youtube.com/v/Uzrf7F1rbgY?fs=1&hl=en_GB&rel=0" allowscriptaccess="always" allowfullscreen="true"></embed></object>احمد عرفان شفقتhttp://www.blogger.com/profile/08344288462877613544noreply@blogger.com6tag:blogger.com,1999:blog-4735105821402874410.post-38784674836288249342010-11-10T03:23:00.000+05:002016-03-30T10:19:15.318+05:00فری ہاسٹنگ پر ورڈپریس۔۔۔کیونکر؟<div style="text-align: right;">
دیکھیئے میں ورڈ پریس پر ہی رہنا چاہتا ہوں مگر paid hosting پر نہیں۔۔۔اب فری ہاسٹنگ پر۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
لیکن ابھی تک سننے میں تو یہی آیا ہے کہ فری ہاسٹنگ والے کسی نہ کسی شکل میں کبھی نہ کبھی کوئی نہ کوئی گڑ بڑ کر ہی دیتے ہیں جس کا نتیجہ بعض صورتوں میں یہ بھی ہوتا ہے کہ اپنے بلاگ سے ہی ہاتھ دھونا پڑ جاتے ہیں۔ لیکن یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ کچھ بلاگران نے فری ہاسٹنگ پر اپنا بلاگ ورڈ پریس پر چلایا ہوا ہے اور بظاہر سب ٹھیک ٹھاک ہی چل رہا ہے۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
سو وہ لوگ جو اپنی فری ہاسٹنگ سے مطمئن ہیں براہ کرم راہنما ئی فرمائیں کہ کونسی فری ہاسٹنگ سروس سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ عین نوازش ہو گی۔</div>
<div style="text-align: right;">
wordpress.org سے ہٹ کر wordpress.pk کو دیکھا ہے لیکن اس میں تھیم میں ترمیم کرنا یا خود سے پلگ انز شامل کرنا ممکن نہیں۔ یہی حال wordpress.com کا ہے۔ اس میں تو پلگ انز کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ پوسٹ ایڈیٹر میں تو چلو نستعلیق فونٹ کسی طور کر ہی لیں، کمنٹ باکس کا فونٹ کلی طور پر ناقابل ترمیم اور بنا ترمیم قطعئ طور پر ناقابل قبول ہے۔ Blogger.com میں تھیم تو ایڈٹ ہو سکتی ہے مگر کمنٹ باکس میں فونٹ سائز اور فونٹ ٹائپ تبدیل کرنے کی کوئی صورت نہیں ہے۔ یا ہے؟</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
تو پھر جناب ہے کوئی فری ہاسٹنگ جس پر اپنے پیارے ورڈ پریس پر ہی طبع آزمائی جاری رکھی جا سکے؟</div>
احمد عرفان شفقتhttp://www.blogger.com/profile/08344288462877613544noreply@blogger.com17tag:blogger.com,1999:blog-4735105821402874410.post-41222430084238914182010-10-29T15:59:00.000+05:002011-12-03T11:14:15.141+05:00ذہین عورتیںمردوں سے برابری کا مطالبہ صرف وہ عورتیں کرتی ہیں جو اپنے آپ کو ذہین سمجھتی ہیں۔جو عورتیں حقیقت میں ذہین ہوتی ہیں وہ ایسا نہیں کرتیں۔احمد عرفان شفقتhttp://www.blogger.com/profile/08344288462877613544noreply@blogger.com18tag:blogger.com,1999:blog-4735105821402874410.post-58416025279255630122010-09-09T22:15:00.000+05:002016-03-30T10:21:04.990+05:00رمضان کے بعد<div style="text-align: right;">
ستائیسویں روزے کے بعد عموما ً رمضان کے لیے ہمارا ولولہ ماند پڑ جاتا ہے۔ شاید ایک تو یہ خیال ہوتا ہے کہ بس اب تو روزے ختم ہی سمجھو اور دوسرا دھیان سارا عید کی طرف مائل ہو جاتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ جو آخری دو یا تین روزے ہوتے ہیں وہ بھی رمضان کا اسی طرح حصہ ہوتے ہے جیسے کہ پہلے والے باقی روزے۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
اور یہ بھی توجہ طلب بات ہے کہ انتیسویں رات بھی آخری عشرے کی طاق رات ہوتی ہے باقی چار طاق راتوں کی طرح۔ اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لیلتہ قدر کی رات آخری پانچ طاق راتوں میں تلاش کرنے کا حکم دیا ہے اور اس سلسلے میں پانچوں طاق راتوں کی اہمیت برابر ہے۔ رمضان کی انتیسویں رات بھی وہ رات ہو سکتی ہے جو کہ لیلتہ القدر ہو۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
رمضان کے بابرکت مہینے میں جو ہماری ایک تقویٰ والی، اللہ کی اطاعت والی ایک کیفیت بن جاتی ہے رمضان کے عین اختتام پر چاند رات کو بازاروں میں اس کا بالکل الٹ منظر پیش کیا جاتا ہے۔ عید کی شاپنگ کے نام پر ایک عجب ہنگامہ برپا ہوتا ہے۔ اگر صرف خریداری کی ہی بات ہو تو چیزیں تو رمضان سے پہلے والے مہینے میں بھی خرید لی جا سکتی ہیں۔ خیر۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
اس دفعہ تو ویسے بھی دل یہی چاہتا ہے کہ عید سادگی سے ہی منائی جائے۔ سیلاب کے مارے لاتعداد لوگوں کی لاچاری کو روزانہ دیکھ کر دل ملول تو ہوتا ہی ہے نا۔ عید پر ہمیں اللہ کا تہہ دل سے ممنون ہونا چاہیے کہ اس نے ہم میں سے بہت سوں کو سیلاب کی اس آفت سے اپنی امان میں رکھا، عافیت سے روزے رکھنے کی توفیق دی اور عید کا دن دکھایا۔ رمضان سے کوئی دو ہفتے پہلے جو 152 افراد جہاز کے حادثے میں لقمہ اجل بن گئے تھے وہ نہ یہ رمضان دیکھ سکے نہ یہ عید۔ اللہ ان سب کی مغفرت فرمائے۔ آمین۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
رمضان کے بعد دو بہت ثواب کے کام ہیں جو توجہ طلب ہیں. ان میں سے ایک تو کرنا لازم ہے اور دوسرا نفلی عبادت کے زمرے میں آتا ہے ۔<a href="http://http//www.islamic-portal.net/new_slides/sadqa-e-fittar_kay_mashaal.htm" target="_blank" title="sadqa al fitr"> </a>لازم تو ہے<a href="http://www.islamic-portal.net/new_slides/sadqa-e-fittar_kay_mashaal.htm" target="_blank" title="sadqa al fitr"> فطرانے کی ادائیگی</a>۔ اس کو صدقہ الفطر بھی کہا جاتا ہے۔ اس کا درست اور بر وقت اہتمام کرنا ہر مسلمان پر لازم ہے۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
دوسرا کام ہے شوال کے چھ روزے رکھنا۔ ان کا بہت ثواب ہے۔ یکم شوال کو عید ہوتی ہے۔ اس دن کو چھوڑ کر شوال کے باقی دنوں میں ہر سال یہ چھ روزے رکھ کرخوش نصیب لوگ گناہوں کی مغفرت کے ایک بڑے موقعے سے فائدہ اٹھا تے ہیں۔</div>
احمد عرفان شفقتhttp://www.blogger.com/profile/08344288462877613544noreply@blogger.com3