25.1.13

عید میلاد النبی؟؟؟






7 تبصرے:

افتخار اجمل بھوپال said...

پرانی بات ہے کہ میں نے اُردو سیّارہ سے منسک اُردو فورم پر تاریخی حوالوں سے اس کے متعلق لکھا تھا ۔ نام نہاد عاشقانِ رسول طیش میں آگئے تھے اور نہ صرف مجھے بلکہ میرے آباؤ اجداد کو دشنام طرازی کا ھدف بنا دیا تھا ۔ میں نے اُس وقت کے منتظم (نبیل نقوی) سے درخواست کی تو جواب ملا تھا ”آپہ لکھنے میں آزاد ہیں اور وہ بھی لکھنے میں آزاد ہیں“۔ اس کے بعد میں نے اپنی ساری تحاریر اُردو فورم سے مٹا دیں اور پھر کبھی اُدھر کا رُخ نہ کیا ۔ کیونکہ سکول میں ہمارے پی ٹی ماسٹر کہا کرتے تھے ”بچہ ۔ اپنی عزت اپنے ہاتھ میں ہے“۔

Unknown said...

Now they started a new tradition - firing 21 gun salute to start that day. Seems like whole Pakistan is an operational Muslim garrison

noor said...

میں نے تو کیک کاٹتے ہوئے بھی دیکھا ہے آپ صل اللہ علیہ سلم کے میلاد کا۔۔۔

اللہ ہمارے حال پر رحم کرے ۔ آمین

Unknown said...

بیشک خدا تیرے حال پہ رحم فرمائیں

Unknown said...

قرآن میں ہے: اور انہیں اللہ کے دن یاد دلاؤ ۔ ( ابراہیم ، 5)عبد اللہ بن عباس کے نزدیک ایام اللہ سے مراد وہ دن ہیں۔جن میں رب تعالٰی کی کسی نعمت کا نزول ہوا ہو ۔ ( ان ایام میں سب سے بڑی نعمت کے دن سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت و معراج کے دن ہیں ، ان کی یا د قائم کرنا بھی اس آیت کے حکم میں داخل ہے)۔ [16]

بلاشبہ اللہ تعالٰی کی سب سے عظیم نعمت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مقدسہ ہے ۔ ارشاد باری تعالٰی ہوا ، ( بیشک اللہ کا بڑا احسان ہوا مسلمانوں پر کہ ان میں انہیں میں سے ایک رسول بھیجا)۔ (آل عمران ،164)

آقا و مولی صلی اللہ علیہ وسلم تو وہ عظیم نعمت ہیں کہ جن کے ملنے پر رب تعالٰی نے خوشیاں منانے کا حکم بھی دیا ہے ۔ ارشاد ہوا ، ( اے حبیب ! ) تم فرماؤ ( یہ ) اللہ ہی کے فضل اور اسی کی رحمت ( سے ہے ) اور اسی چاہیے کہ خوشی کریں ، وہ ( خو شی منانا ) ان کے سب دھن و دولت سے بہتر ہے ) ۔ ( یونس ، 58 ) ایک اور مقام پر نعمت کا چرچا کرنے کا حکم بھی ارشاد فرما یا، (اور اپنے رب کی نعمت کا خوب چرچا کرو)۔ (الضحی 11، کنز الایمان)

خلاصہ یہ ہے کہ عید میلاد منانا لوگوں کو اللہ تعالٰی کے دن یا د دلانا بھی ہے، اس کی نعمت عظمی کا چرچا کرنا بھی اور اس نعمت کے ملنے کی خوشی منانا بھی۔ اگر ایمان کی نظر سے قرآن و حدیث کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ذکر میلاد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالٰی کی سنت بھی ہے ۔ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت بھی۔

سورہ آل عمرانترميم

سورہ آل عمران کی آیت ( 81 ) ملاحظہ کیجیے ۔ رب ذوالجلا ل نے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کرام کی محفل میں اپنے حبیب لبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد اور فضائل کا ذکر فرمایا ۔ گویا یہ سب سے پہلی محفل میلاد تھی جسے اللہ تعالٰی نے منعقد فرمایا ۔ اور اس محفل کے شرکاء صرف انبیاء کرام علیہم السلام تھے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دنیا میں تشریف آوری اور فضائل کا ذکر قرآن کریم کی متعدد آیات کریمہ میں موجود ہے۔

رسول معظم صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک زمانہ کی چند محافل کا ذکر ملاحظہ فرمائیے۔ آقا و مولی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود مسجد نبوی میں منبر شریف پر اپنا ذکر ولادت فرمایا۔ (جامع ترمذی ج 2 ص 201) آپ نے حضرت حسان رضی اللہ عنہ کے لیے منبر پر چادر بچھائی اور انہوں نے منبر پر بیٹھ کر نعت شریف پڑھی، پھر آپ نے ان کے لیے دعا فرمائی۔ (صحیح بخاری ج 1 ص 65) حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے غزوہ تبوک سے واپسی پر بارگاہ رسالت میں ذکر میلاد پر مبنی اشعار پیش کیے (اسد الغابہ ج 2 ص 129)

اسی طرح حضرات کعب بن زبیر ، سواد بن قارب ، عبد اللہ بن رواحہ ، کعب بن مالک و دیگر صحابہ کرام ( رضی اللہ عنہم ) کی نعتیں کتب احادیث و سیرت میں دیکھی جاسکتی ہیں ۔ بعض لوگ یہ وسوسہ اندازی کرتے ہیں کہ اسلام میں صرف دو عید یں ہیں لہذا تیسری عید حرام ہے ۔ ( معاذ ا للہ ) اس نظریہ کے باطل ہونے کے متعلق قرآن کریم سے دلیل لیجئے ۔ ارشاد باری تعالٰی ہے ، ( عیسیٰ بن مریم نے عرض کی ، اے اللہ ! اے ہمارے رب ! ہم پر آسمان سے ایک ( کھانے کا ) خوان اتار کہ وہ ہمارے لیے عید ہو ہمارے اگلوں پچھلوں کی)۔ (المائدہ ، 114، کنزالایمان)

صدر الافاضل فرماتے ہیں ، ( یعنی ہم اس کے نزول کے دن کو عید بنائیں ، اسکی تعظیم کریں ، خوشیاں منائیں ، تیری عبادت کریں ، شکر بجا لا ئیں ۔ اس سے معلوم ہو ا کہ جس روز اللہ تعالٰی کی خاص رحمت نازل ہو ۔ اس دن کو عید بنانا اور خوشیاں بنانا ، عبادتیں کرنا اور شکر بجا لانا صالحین کا طریقہ ہے ۔ اور کچھ شک نہیں کہ سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری اللہ تعالٰی کی عظیم ترین نعمت اور بزرگ ترین رحمت ہے اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت مبارکہ کے دن عید منانا اور میلاد شریف پڑھ کر شکر الہی بجا لانا اور اظہار فرح اور سرور کرنا مستحسن و محمود اور اللہ کے مقبول بندوں کا طریقہ ہے ) ۔ ( تفسیر خزائن العرفان )۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے آیت (الیوم اکملت لکم دینکم ) تلاوت فرمائی تو ایک یہود ی نے کہا، اگر یہ آیت ہم پر نازل ہوتی تو ہم اس دن کو عید مناتے۔ اس پر آپ نے فرمایا ، یہ آیت جس دن نازل ہوئی اس دن دو عیدیں تھیں، عید جمعہ اور عید عرفہ۔ (ترمذی) پس قرآن و حدیث سے ثابت ہوگیا کہ جس دن کوئی خاص نعمت نازل ہو اس دن عید منانا جائز بلکہ اللہ تعالٰی کے مقرب نبی حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور صحابہ کرام علیہم الرضوان کی سنت ہے۔ چونکہ عید الفطر اور عید الاضحی حضور ﷺ ہی کے صدقے میں ملی ہیں اس لیے آپ کا یوم میلاد بدرجہ اولی عید قرار پایا۔

عید میلاد پہ ہوں قربان ہماری عیدیں کہ اسی عید کا صدقہ ہیں یہ ساری عیدیں

Unknown said...

رمضان کی خوشیاں جائز ہیں
عید الفطر خوشی کا دن
عید عضی خوشی کا دن
یہ سب کس کے کہنے پہ مناتے ہو ؟
ذرا سا سوچو
!!!��������������
جس نے اسلام ، اللہ اور نعمتوں کی پہچان کرائی وہ نعمت ہی نا ملتی تو وہ رسول ملتی تو سب گمراہ ہوتے ۔
سب سے بڑی نعمت پہ شکرگزاری کرو اور خوشیاں منائو تاکہ خدا تم پہ رحم فرمائے۔۔۔۔۔۔۔

Unknown said...


رمضان کی خوشیاں جائز ہیں
عید الفطر خوشی کا دن
عید عضی خوشی کا دن
یہ سب کس کے کہنے پہ مناتے ہو ؟
ذرا سا سوچو
!!!��������������
جس نے اسلام ، اللہ اور نعمتوں کی پہچان کرائی وہ نعمت ہی نا ملتی تو وہ رسول ملتی تو سب گمراہ ہوتے ۔
سب سے بڑی نعمت پہ شکرگزاری کرو اور خوشیاں منائو تاکہ خدا تم پہ رحم فرمائے۔۔۔۔۔۔۔

Post a Comment