19.5.10

ایک اچھی تحریر کی خوبی

اس اہم موضوع پہ نعمان رقمطراز ہیں:
”ایک اچھی تحریر کی خوبی لوگ اکثر اسطرح جانچتے ہیں کہ وہ کسقدر اثر انگیز ہے، مصنف اپنا پیغام قاری تک پہنچانے میں کامیاب رہا یا نہیں۔ باقی سب چیزیں ثانوی ہیں۔

بعض اوقات لکھنے والے الفاظ کے چناؤ میں بے احتیاطی کے سبب اپنی تحریر کی اثر پذیری اور قاری تک اپنا نکتہ نظر پہنچانے میں ناکام ہوجاتے ہیں۔

تو سوال یہ ہے کہ اگر آپ اس معیار میں ناکام ہوجائیں تو تحریر اچھی کہلانے کی مستحق ہوگی؟

اس کی بہت ساری مثالیں کلاسیکی ادب میں موجود ہیں۔ جب ماہرین فن نے ٹکسالی فحش زبان کو ذریعہ اظہار بنایا ہے۔ مگر تب جب الفاظ کا یہ چناؤ اور اظہار کا یہ طریقہ ان کی تحریر کی اثر پذیری اور مقصدیت کے لئے ضروری تھا۔ جملے بازی اور فحش تمثیل کا بے جا استعمال تفریح کا ذریعہ تو ہوسکتا ہے، مگر یہ کسی تحریر کو اچھا نہیں بناتا۔

تحریر اچھی ہونے سے مراد یہ نہیں کہ اسے شاہکار ہی ہونا چاہئے۔ لیکن ایسا ہونا چاہئے کہ قاری اس سے لطف اندوز ہو۔ وہ اسے ٹھیک سے سمجھ سکے اور اس میں موجود پیغام، خیال یا سوال کی تائید و تردید کر سکے۔

بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ بطور قاری آپ کو مصنف کا الفاظ کا چناؤ ناگوار گزرتا ہے۔ یہ قطعا قاری کا نہیں بلکہ سراسر مصنف کا قصور ہے کہ اس نے قاری کو اس ناگواری کا سامنا کرنے کے لئے تیار نہیں کیا۔ اور الفاظ کے بے جا چناؤ کے سبب قاری کو تحریر مقصد سے عاری اور پھکڑ بازی پر مبنی نظر آئی۔

قاری کو یہ احساس ہوا کہ مصنف پھکڑ بازی پسند کرنے والے ٹولے کی داد پانے کے لئے اپنے معیار پر سمجھوتہ کررہا ہے۔ وہ اپنی بذلہ سنجی، شگفتگی اور ذہین حس مزاح کو ٹھیلے پر بکنے والے فحش لطیفوں کی سطح پر لے کر آرہا ہے۔ قاری اسے اپنی تذلیل سمجھتا ہے۔ کیونکہ ایک مصنف جسے مسلسل پڑھنے والے قاری مل جائیں تو قارئیں اور اس کے درمیان اعتماد کا ایک رشتہ قائم ہوجاتا ہے۔ قاری کو محسوس ہوتا ہے کہ مصنف اپنے انداز سے پھر رہا ہے اور وہ اس بے وفائی پر مصنف کو برا بھلا کہتا ہے۔

آپ کو ایسی کئی مثالیں ملیں گی جن میں لکھنے والوں نے اپنے انداز تبدیل کرنے کی بارہا کوشش کی اور پھر وہیں لوٹ آئے جو ان کا انداز تھا۔ وجہ یہ نہیں تھی کہ وہ قاری کے قصیدوں کے بھوکے تھے بلکہ وجہ یہ تھی کہ وہ اپنے اصل انداز میں زیادہ پراثر تھے۔

اگر آپ اچھا لکھنا نہیں چاہتے، یعنی نہ اثرانداز ہونا چاہتے ہیں نہ خیالات کی ترسیل چاہتے ہیں۔ تو پھر آپ اچھا لکھیں چاہے برا، کیا فرق پڑتا ہے؟“

4 تبصرے:

ماموں said...

بہت خوب!
بہت ہی اچھا اور ذرا ہیٹ کے ہے-

احمد عرفان شفقت said...

آپکا مطلب ہے کہ ہٹ کے ہے؟

Unknown said...

عمدہ

Unknown said...

عمدہ

Post a Comment