6.9.10

جاتےرمضان میں کچھ باتیں


مجھے کچھ دن پہلے ایک میل ملی جس میں لکھا تھا کہ آپ ایک پرسکون جگہ پر بیٹھ جائیں۔ پھر تصور کریں کہ اللہ آپ سے فرما رہا ہے مانگو مجھ سے کیا مانگنا ہے، میں تمہیں دوں گا ۔ سو آپ ان تمام چیزوں کا سوچیں جو آپ اس دنیا اور آخرت میں حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
ان میں سے اپنی پسندیدہ ترین کچھ چیزوں کا انتخاب کر لیں۔ پھر آخری عشرے کی تمام راتوں میں آپ تسلسل، یکسوئی اور یقین کے ساتھ اللہ سے وہ چیزیں مانگیں۔ اس طرح لازم ہے کہ آپ کی دعا لیلتہ القدر میں آ جائے گی۔ انشاءاللہ۔
اور جو دعا اللہ کے حضور لیلتہ القدر میں پہنچے اس کی قبولیت کے امکانات تو پھر آپ سمجھ ہی سکتے ہیں۔
سو یہ کر دیکھیں۔


اعتکاف بیٹھنا ایک زبردست کام ہے جس کے بہت سے روحانی فوا ئد ہیں۔ ایک بہت بڑا فائدہ یہ بھی ہے کہ رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں جو یکسوئی اعتکاف کی حالت میں میسر آسکتی ہے وہ ویسے عام حالات میں ملنا مشکل ہوتی ہے۔
اعتکاف کے اختتام پر خاموشی سے گھر لوٹ آنا ہی ٹھیک ہے۔ یہ جو لوگ ہار وغیرہ لے کر اعتکاف سے فارغ ہونے والے کو ایک جشن کی سی کیفیت میں لینے مسجد پہنچے ہوتے ہیں اس قسم کے سلسلے سے گریز ہی کرنا چاہیے۔


اس رمضان میں ٹی وی ون چینل سے ہر شام سات بجے جنید جمشید کے درس سننے کا موقعہ ملا۔ بہت کچھ کام کی باتیں بتاتا ہے یہ آدمی۔ اسے اللہ کی باتیں اتنے موثر انداز میں بتاتے دیکھ کر میں تو اکثر یہ سوچ کر حیران ہوتا ہوں کہ اللہ کی شان ہے کہ ایک ایسا نوجوان جو ناچنے گانے میں مگن اپنی زندگی بِتا رہا تھا اسے اللہ نے کیسی ہدایت سے نوازا کہ آج وہی شخص لوگوں کو اللہ کے راستے کی طرف بلا رہا ہے۔ اکثر جنید خود بھی اپنے لہو و لعب اور گمراہی کے شب و روز کا ذکر کرتا ہے جب وہ بتاتا ہے کہ اتنا بڑا انقلاب کیسے اللہ نے اس کی زندگی میں برپا کیا۔

جنید انتہائی سادہ اور سلیس انداز میں اپنے سننے والوں کو اللہ سے تعلق جوڑنے اور اس کی اطاعت کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ ہو سکے تو آپ بھی سنیں اسے۔


رمضان میں بہت سا قرآن سننے کو مل جاتا ہے ہر رات تراویح کی صورت میں۔ قرآن پڑھنے کا جو ایک بنیادی سلیقہ ہے وہ یہ ہے کہ اس عظیم کلام کو ٹھیر ٹھیر کر اطمینان سے پڑھا جائے۔ اگر تیز پڑھنا بھی ہو تو ایک خاص حد سے زیادہ تیز نہ پڑھا جائے اور اس پاک کلام کا ادب ہمیشہ ملحوظ خاطر رہے۔

لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اکثر مساجد میں تراویح پڑھانے والے قاری صاحبان اس بات کا خیال بالکل نہیں رکھتے اور انتہائی تیز رفتاری سے قرآن پڑھتے چلے جاتے ہیں۔ اس بات کو تراویح پڑھنے والے لوگ نوٹ کر رہے ہوتے ہیں اور ایک دوسرے سے اس خرابی کا ذکر بھی کرتے ہیں لیکن امام صاحب کو اس روش کو چھوڑنے کا نہیں کہتے۔

پھر وہ جوقرآن کو ایک، دو یا تین راتوں میں ختم کرنےکے پروگرام منعقد کیے جا رہے ہوتے ہیں ان میں اللہ کے کلام کو تیز رفتاری سے پڑھنے کے اپنے ہی بنائے ہوئے ریکارڈ توڑے جا رہے ہوتے ہیں۔ اور اوپر سے گمان کیا جا رہا ہوتا ہے کہ یہ سلسلے انتہا ئی روح پرورہیں۔

اگر کوئی پوچھنے کی کوشش کرے کہ یہ والی سیٹنگ اور سلسلے کدھر سے آپ نے لیے جب کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو رمضان میں باجماعت قیام اللیل صرف تین رات کیا تھا اور اس کے بعد صحابہ اکرام اپنے طور پر گھروں میں یا مسجد میں یہ نماز پڑھتے رہے تو کہا جاتا ہے کہ جی مسلمان صدیوں سے یہ نماز یونہی پڑھتے چلے آ رہے ہیں۔

آپ کہیں اچھا جی لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے تو جو ثابت ۔۔۔۔تو جواب ملتا ہے
” بس چُپ۔ جس بات کا پتا نہ ہو وہ نہیں پوچھتے۔“

17 تبصرے:

نغمہ سحرِ said...

اتنا اچھا لکھنے کے بعد آخر میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اچھا نہیں لگا
مانا کہ یہ طریقہ تراویح نبی پاک سے ثابت نہیں لیکن صحابہ کرام سے تو ثابت یے اور نبی پاک کا فرمان ہے جس نے میرے صحابہ کی پیروی کی گویا اس نے میری پیروی کی۔ اگر آپ کا دل نہیں مانتا تو نہ کریں صحابہ کی پیروی مگر جو کر رہا ہے اس کو کرنے دیں۔اس بات کو وجہ نفاق نہ بنائیں۔ شکریہ

جاویداقبال said...

السلام علیکم ورحمۃ وبرکاتہ،
جزاک اللہ خیر، اللہ تعالی زورقلم میں اورترقی دے۔ آمین ثم آمین

والسلام
جاویداقبال

حجاب said...

بہت اچھا لکھا ہے آپ نے ۔۔ اللہ ہماری دعاؤں کو شرفِ قبولیت بخشے آمین ۔۔

میرا پاکستان said...

واقعی بہت کام کی باتیں‌لکھی ہیں‌آپ نے اور ہم میں‌سے بہت کم لوگوں نے رمضان میں‌ایسی باتوں کی طرف توجہ دلائی ہے۔ جہاں تک قرآن تیزی سے پڑھنے کا تعلق ہے تو لوگ اسلیے امام کو نہیں روکتے کیونکہ انہوں نے گھر جلدی جانا ہوتا ہے۔

عثمان said...

میں پہلے جس مسجد میں‌ تراویح‌ پڑھتا تھا ان کا طریقہ کار یہ تھا کہ تراویح پڑھنے سے پہلے آدھ گھنٹا ترجمہ و تشریخ‌ مختصراً انگریزی میں سنائی جاتی اور پھر جماعت کھڑی ہوتی۔ امام سوڈان کے تھے۔ بہت خوش الحان ۔۔۔۔ٹھہر ٹھہر کر قرآت کرتے۔ باوجود یہ کہ تراویح‌ کافی لمبی ہوجاتی لیکن دلچسپی برقرار رہتی۔
اب جگہ تبدیل ہوجانے کی وجہ سے وہ مسجد دور ہے۔ اس رمضان میں وہاں ‌جا ہی نہیں‌ سکا۔

احمد عرفان شفقت said...

@ نغمہ سحرِ:
آپکا تبصرہ دیکھ کر خوشی ہوئی۔ اسی کے توسط سے آپ کا بلاگ بھی دیکھ سکا۔ اچھا لگا۔ آپکے بلاگ کا ربط میں نے اپنے بلاگ رول میں شامل کر لیا ہے۔ امید ہے آپ تسلسل سے لکھتی رہیں گی انشاء اللہ۔
جو میں نے لکھا اس میں نیت نفاق کی ہر گز نہ تھی۔ ایک صورتحال ہے جو بیان کر دی۔

احمد عرفان شفقت said...

@ جاویداقبال:
آپکا شکریہ۔

احمد عرفان شفقت said...

@ حجاب:
آمین

احمد عرفان شفقت said...

@ عثمان:
امام تسلی اور خوش الحانی سے قرا ءت کر رہا ہو تو واقعی تھکاوٹ اور عدم دلچسپی کا احساس نہیں ہوتا لیکن عثمان تراویح میں ایسے امام خال خال ہی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ عام طور پر یہی دیکھا گیا ہے کہ وہ ایک مشین کی طرح پڑھتے چلے جا رہے ہوتے ہیں، تیز تیز رکوع و سجود کا سلسلہ چل رہا ہوتا ہےاور تھکے تھکےسے مقتدی بیچارے پیچھے گرتے پڑتے ان امام صاحب کا ساتھ دینے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔

محمد طارق راحیل said...

آپ نے ٹھہر ٹھہر کر پڑھنے والی جو بات کی ہے وہ واقعی عمل کے قابل ہے تراویح میں تو پھر بھی کچھ بہتر سمجھ آ جاتا ہےمگر یہ شبینہ تو اللہ معاف کرے ایسے پڑھتے ہیں جیسے بس حد ہی ہو گئی

احمد عرفان شفقت said...

@ محمد طارق راحیل:
ہم سب یہی محسوس کرتے ہیں کہ حد ہی ہو گئی ہے لیکن بہرحال پھر بھی چل رہا ہے یہ ایسے ہی۔

محمد سعيد بالن بوري said...

احمد بہائ!
كيا شبينه صحابه سے ثابت ہے؟

نغمہ سحرِ said...

http://www.binoria.org/ramadan/travih.html
اس لنک پر پر نماز تراویح کی دلیل تفصیل سے بیان کی گئی ہے اسے کا ضرور مطالعہ کریں۔شکریہ

احمد عرفان شفقت said...

@ نغمہ سحرِ:
آپکا بہت شکریہ۔

عبداللہ said...

آپکی یہ پوری پوسٹ میرے خیالات کی بھرپور ترجمانی کرتی ہے!
اللہ ہمیں دین کاصحیح فہم اور اس کے مطابق عمل کی توفیق عطافرمائیں،آمین یا رب العالمین

احمد عرفان شفقت said...

@ عبداللہ:
ثم آمین

Unknown said...

قرآن پاک کو ٹھہر ٹھہر کر ہی پڑھنا چاہیئے جزاک اللہ

Post a Comment