”جارج کا پاکستان“ والا جارج یاد ہے نا آپکو؟ اس برطانوی صحافی کا پورا نام جارج فلٹن ہے (جسے بعض اوقات میں فُل ٹُن بھی پڑھا جا سکتا ہے)۔
حال ہی میں جارج کا ایک مضمون دی ایکسپریس ٹریبیون میں شائع ہوا ہے جس کا لب لباب یہ ہے کہ گو کہ ان دنوں ہم پاکستان میں اتنے خوش نہیں ہیں لیکن شکر ہے پاکستان دبئی نہیں ہے۔
وہ لکھتا ہے کہ پاکستان میں لوڈشیڈنگ، دھماکوں اورمیڈیا کے ذریعے مسلسل پھیلائی جانے والی قنوطیت اور بے یقینی سے بیزار ہو کر میں نے سوچا کہ چند دن دبئی جا کر کچھ چین اور سکوں پاوں۔مگر یہ تو بڑی غلطی ہوئی۔دس دن بعد ہی میں کراچی کی آلودہ مگر کہیں زیادہ سہانی فضا ؤں کو ترستا واپس آن پہنچا۔دبئی میں دنیا کی سب سے بلند عمارت اور دنیا کا سب سے بڑا شاپنگ مال ضرور ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ احساسات و جذبات سے عاری ہونے میں بھی یہ شہر اول نمبر پر ہے۔یہ محض شیشے اور لوہے سے بنا ایک بے روح پلاسٹک کا شہر ہے۔
دبئی نے مغربی معاشرے کے منفیات جیسے ماحولیاتی آلودگی، بکثرت اصراف وغیرہ تو اپنے ہاں درآمد کر لیے ہیں لیکن وہاں کی کوئی کار آمد چیز جیسے آرٹ یا جمہوریت وغیرہ کچھ بھی حاصل نہیں کیا۔ دبئی بس نفس پرستوں کے لیے فوری لذت کی دستیابی کے سامان لیے ہوئے ایک شہر کے طور پر بنایا گیا ہے جہاں تیز رفتار زندگی نفسانی خواہشات کے پجاریوں کی منتظر ہے۔ یہ شہر یوں لگتا ہے جیسے لاس ویگاس نے بس دشداشہ پہن لیا ہے۔
دبئی میں قیمتی ترین شراب سے لے کر مہنگی ترین چھنال سب دستیاب ہے۔ وہاں کے شاپنگ مالز، کیپیٹل ازم اور مادیت کے گڑھ، زندہ مُردوں کے مزار دِکھتے ہیں۔بے کیف اور اداس روحیں ان مالز میں ہمہ وقت بھٹکتی دکھائی دیتی ہیں کہ اپنی زندگی کے خلاوں کو بھانت بھانت کی چیزوں، ملبوسات اور فاسٹ فوڈ سے شاید پُر کر سکیں۔مال آف ایمیریٹس میں اذان کی آواز گونجتی ہے مگر کوئی بھی نماز کو نہیں جاتا۔ سب سٹیلا میک کارٹنی، گُچی،پراڈا کو سجدہ کرنے میں مشغول رہتے ہیں۔ مختلف قومیتوں کے لوگ بڑے بڑے چشموں اور بڑے بڑے بیگوں سے لیس ،طرح طرح کے آدھے پورےلباس پہنے،سٹیٹس اور دولت کی دوڑ میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور پیچھے چھوڑنے کی دھن میں وہ کپڑے جنہیں وہ کبھی نہیں پہنیں گے اور وہ کتابیں جنہیں وہ کبھی نہیں پڑھیں گے، اندھا دھند خریدتے دکھائی دیتے ہیں۔
اعلی اقدار کے فقدان کے ساتھ ساتھ دبئی معاشی دیوالیہ پن کا بھی شکار ہو چکا ہے۔حکمرانوں کی عجیب و غریب سوچ اور اول جلول منصوبہ بندی کے باعث دبئی اب 80 ارب ڈالر کا مقروض ہے۔وہاں کی سٹاک مارکیٹ اور پراپرٹی مارکیٹ کے پڑخچے اڑ چکے ہیں۔ماضی قریب میں نظر آنے والی ترقی محض خواب اور سراب ثابت ہوئی ہے اور اب مستقبل مخدوش دکھائی دیتا ہے۔
سو وہ سب لوگ جو پاکستان کو اس کے مسائل کی وجہ سے کوستے رہتے ہیں انہیں چاہیے کہ وہ تھوڑا قرار پکڑیں اور ہر وقت کے طعن و تشنیع اور رونے دھونے سے ذرا رک کر پاکستان کی ثقافتی ، مذہبی اور لسانی تنوع اور خوبصورتی پہ بھی ایک نظر ڈالیں۔ ٹھیک ہے بہت چیزوں کا فقدان ہے مگر ہم جمہوریت کی نعمت سے تو مالا مال ہیں۔ ہماری میڈیا غیر ذمہ دارسہی مگر ہے تو بہت مستحکم۔ بد عنوانیاں ہیں مگر ہم پولیس سٹیٹ تو نہیں ہیں۔ چار سو کوڑا کر کٹ ہے تو کاغذ اکٹھا کرنے والے بھی تو ہیں۔
آخر میں جارج کہتا ہے کہ پاکستان میں کیڑے نکالنے والے یاد رکھیں کہ یہ ملک روح و جان اور زندگی کی حدت سے بھرپور ہے۔ کم از کم یہ دبئی تو نہیں ہے۔
جارج کے اس مضمون پر بہت سے قارئین نے اپنے اپنے تبصرے کئے ہیں. انہیں پڑھے بنا اس مضمون کا تاثر ادھورا رہتا ہے. طرح طرح کی آراء ہیں۔مثلآ ایک صاحب عمر زبیر اعوان صاحب کہتے ہیں کہ کراچی میں بھی خوشحال طبقے کے یہی انداز ہیں اور بھینس کالونی، مچھر کالونی اور فقیر کالونی کے باسیوں کو کلفٹن کے پل کی دوسری جانب جا کر ویسا ہی لگتا ہے جیسا جارج نے دبئی جا کر محسوس کیا۔
پھر کانر پارسل نامی ایک صاحب نے جارج کے اس مضمون کے بعد جو ایک جوابیہ مضمون لکھا وہ بھی پڑھنا دلچسپی سے خالی نہ ہو گا۔