”دیکھو یہ جو دسمبر ابھی گزرا ہے نا یہ وہی دسمبر تھا جس کا تمہیں انتظار تھا۔اوریہ وہی سردیاں ہیں جن کا ذکر کر کے تم اتنا کچھ کہتے تھے۔
تم کتنے سالوں سے ہر سال یہی کہتے ہو کہ بس ذرا موسم بدل لینے دو، یہ گرمیاں یہ حبس جا لینے دو، سردیاں آ لینے دو بس پھر دیکھنا۔۔۔جتنے رکے پڑے کام ہیں، میں سارے کے سارے ختم کر دوں گا۔
مگر دیکھ لو، آج تک ایسا کچھ ہو نہیں سکا۔ سردیاں ہر سال آتی ہیں اور آ کر گزر جاتی ہیں۔ تم ہر سال کہتے ہو بس دسمبر آ لینے دو ذرا، سردی ذرا صحیح سے شروع ہو لینے دو، میں اگلا سال چڑھنے نہیں دوں گا۔ یکم جنوری سے پہلے پہلے سب التوا میں پڑئےکام، ہاں ہاں سب کے سب تم دیکھنا، میں انشاءاللہ اب کے نمٹا دوں گا۔
لیکن ہوتا کیا ہے۔۔۔گرمیوں میں تمہیں گرمی تنگ کرتی ہے۔بس اے سی کی ہوا دل کو بھاتی ہے۔سردیوں میں تمہیں سردی ستاتی ہے، گرم لحاف سے نکلنے کا تمہارا دل ہی نہیں کرتا۔خزاں میں ناسٹیلجیا تمہارےدل میں گھر کر لیتا ہے اور بہار میں رومانس تمہارے جسم و جاں میں رواں دواں ہو جاتا ہے۔ اور یوں سارا سال تم یہی انتظار کرتے رہتے ہو کہ موسم ذرا معتدل ہو جا ئے تو بس پھر ایک ساتھ ہی سارے کر دیے جانے کے منتظر کام میں سرانجام دے ڈالوں گا۔
میں تمہیں سچ بتاوں یہ محض خود فریبی کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے۔تمہیں یاد ہو گا چند سال پہلے جب تمہارے ایک کزن کی وفات ہوئی تھی تو تم تھوڑا ساچونکے تھے۔کیونکہ وہ عمر میں تم سے کوئی زیادہ بڑا نہیں تھا۔تمہارے ایج گروپ کا ہی تھا۔ تب تم تھوڑا ڈرے تھے کہ ایک دن اچانک تم بھی اسی طرح اس دنیا کی زندگی کو خیر باد کہہ دو گے اور تمہیں آخرت اور اس دنیا سے متعلقہ پینڈنگ کام کرنے کا موقعہ ہی نہیں ملے گا۔ تب تم نے اپنےآپ سے کہا تھا کہ یہ سب کام تم کو اب فوراً نمٹا دینے چاہییں۔لیکن تب بھی تم نے ڈیڈ لائن اپنے آپ کو جو دی تھی وہ اُس سال کے دسمبر ہی کی تھی۔
دیکھو میں تو تمہیں یہی کہوں گی کہ تم دائمی سستی اور بے عملی کی یہ روش اب ترک کر ڈالو۔ اب کچھ کر ڈالو۔ یہ جو تمہارے سالہا سال سے التوا میں پڑے کام ہیں یقین کرو یہ کوئی بہت زیادہ وقت طلب نہیں ہیں۔ کچھ تو بالکل ہی چند گھنٹوں میں پایہ تکمیل تک پہنچ جانے والے ہیں۔ اگر تم آج سے ان کاموں کو ایک ایک کر کے کرنا شروع کر ڈالو تو سچی بات ہے ایک آدھ ہفتے میں یہ سب اختتام پذیر ہو جائیں گے۔ تمہا رے اندر کا ایک بوجھ، ایک احساس جرم ختم ہو جا ے گا۔تم خود کو بہت ہلکا پھلکا محسوس کرو گے۔
میری مانو۔۔۔پروگرام اور شیڈول بنانے ترک کر دو۔ جو کرنا ہے وہ کرنا شروع کر دو۔آگے تمہاری مرضی۔“
3 تبصرے:
سردی میں کام کہاں ہوسکتے ہیں سب رکے ہوئے کام سردی آنے سے پہلے ختم کرلینا چاہیئے ۔۔۔۔
@ حجاب:
یہ تو ہے۔ لیکن گرمیوں کی تپش اور حبس بھی تو حواس معطل کر دینے والی ہوتی ہے نا
کل فرصت نا ملی تو کیا کرو گے ،
اتنی مہلت نا ملی تو کیا کرو گے ،
روز کہتے ہو کل پڑھوں گا نماز ،
کل اگر سانس نا رہی تو کیا کرو گے . . .
Post a Comment