کسی کا حق مارنا، کسی کے پیسے مارنا وغیرہ جیسی غلط کاریاں تو آپ سنتے ہی رہتے ہیں ۔آج میں آپکی توجہ ایک اور اہم معاشرتی مسئلے کی جانب مبذول کروانا چاہتا ہوں۔ وہ ہے ہوا مارنا۔ آپ اپنی گاڑی کسی سروس سٹیشن پر لے کر جاتے ہیں کہ اس کی دحلائی ستھرائی کروا لیں تو وہ لوگ کاروائی کا آغاز ہوا مارنے سے کرتے ہیں۔
گاڑی کے چاروں دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور ایک صاحب ایک پائپ پکڑ کر اس میں سے نکلتی تیز رفتار ہوا گاڑی کے فرش اور تمام کونوں کھدروں میں مارنا شروع کر دیتے ہیں۔اب اپنے گمان کے مطابق تو وہ گاڑی کی صفائی کر رہے ہوتے ہیں لیکن حقیقت میں جو ہو رہا ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ گاڑی کے فلور میٹس پر پڑی تمام گرد و دیگر گند بلا اڑ اڑ کر ڈیش بورڈ اور اطراف میں جا بکھرتا ہے۔ اس عمل سے گاڑی کا اندر صاف ہونے کی بجائے اور گندا ہو جاتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ وہ لوگ ہوا مارنے کی بجائے ویکیوم کلینر کا استعمال کیوں نہیں کرتے؟ ویکیوم کلینر گند بلا کو دور دور تک اڑانے کی بجائے اپنے اندر کھینچ لے گا جو کہ گاڑی کے اندر کی صفائی کا ایک زیادہ منطقی طریقہ ہے۔ اور یہ بھی نہیں کہ ویکیوم کلینر خریدنے کے لیے کوئی لاکھوں روپے درکار ہوتے ہیں۔ نہ ہی یہ ہے کہ ویکیوم کلینر ایسے مقاصد کے لیے کسی بھی سروس سٹیشن پر استعمال نہیں ہو رہے۔ دبئی میں دیرہ کے علاقے میں ایک دفعہ میں نے دیکھا تھا کہ وہ لوگ گاڑی کے اندر ہوا نہیں مار رہے تھے۔ ویکیوم کلینر استعمال کر رہے تھے۔
اب سروس سٹیشنز کی بات ہو رہی ہے تو ان سے متعلق ایک اور رونا بھی رو ہی لیا جائے: گاڑی کے پچھلے شیشے کو سردیوں میں دھندلا جانے سے بچانے کے لیئے ڈی فراسٹر لگا ہوتا ہے جس کو ہم ڈیش بورڈ میں لگے ایک بٹن سے آن آف کر لیتے ہیں۔ لیکن یہ کارآمد سسٹم بہت جلد کام کرنا چھوڑ دیتا ہے اور اس کا سہرا بھی سروس سٹیشن والوں کے سر ہے۔ان کے بے خبر لڑکے بالے صفائی کے زعم میں پچھلے شیشے کے اندر کی طرف اس قدر زور سے دبا دبا کر کپڑا لگاتے ہیں کہ وہاں لگی ڈی فراسٹر کی سٹرائپس ان کے دباو کی تاب نہیں لا سکتیں اور کہیں نہ کہیں سے کٹ جاتی ہیں۔اب یا تو گاڑی بنانے والے ان سٹرائپس کو شیشے کے اندر یا باہر لگانے کی بجائے شیشے کے درمیان میں لگاتے جہاں کوئی چیز ان سے مس نہ ہوتی۔ لیکن ایسا کرنا گاڑی کی قیمت میں اضافے کا باعث بنتا۔ یا پھر یہ ہے کہ سروس سٹیشن والے ہی کچھ احساس اور درد مندی اس سلسلے میں پیدا کر لیتے۔
لیکن چونکہ یہ دوسرا امکان پہلے والے سے بھی زیادہ کم ہے اس لیے یہی کیا جا سکتا ہے کہ سروس سٹیشن والوں کو کہہ دیا جائے کہ بھائی پچھلا شیشہ اندر سے صاف نہ کرنا۔ لیکن آپ کہہ کر دیکھ لیں۔ آپ ان کی جتنی بھی منت سماجت کر لیں اس سلسلے میں، آپ کو تو وہ لڑکے کہہ دیں گے کہ اچھا جی نہیں کرتے لیکن جیسے ہی آپ کا دھیان ادھر ادھر ہوا، وہ لوگ عادت سے مجبور ہو کر اندر سے شیشے کی رگڑائی کر ہی ڈالیں گے۔ اب اس کا کیا کیا جائے،جبکہ منقطع شدہ ڈی فراسٹر کی مرمت بھی عام حالات میں آسان نہیں۔
8 تبصرے:
:roll:
درست فرمايا آپ نے ۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمارے ہاں جو کچھ ورکشاپس ميں ہوتا ہے ۔ کام جاننے والے کو دل کا دورہ پڑ سکتا ہے ۔ وجہ يہ ہے کہ ہمارے ہموطن تعليم کو قابلِ عمل نہيں سمجھتے چاہے وہ خود پی ايچ ڈی ہوں تو اس ميں اَن پڑھ مستری يا چھوٹے کا کيا قصور ؟ ہمارے ہاں بھاری اکثريت مرمت يعنی ريپيئر کو ديکھ بھال يعنی مينٹيننس سمجھتی ہے ۔ اس کا کوئی علاج ہو تو سب مستری بھی ٹھيک کام کرنے لگيں گے
مسئلہ تو اپنی جگہ ، لیکن کیا کراچی میں اتنی سردی اور دھند ہوتی ہے کہ ڈی فراسڑ کی ضرورت پڑے ؟
یہ بات تو میں نے بھی نوٹ کی ہے۔ سروس کے بعد بھی ایک دفعہ گاڑی اندر سے صاف کرنی ہی پڑتی ہے۔ مجھے اعتراض ہوتا ہے کہ سروس اسٹیشن والے صاحب کبھی بھی شیشے صحیح صاف نہیں کرتے۔ خود بتانا پڑتا ہے یہ صاف کرو ! اب اندر سے صاف کرو۔ میری گاڑی کا ڈیفراگر فارغ ہو چکا ہے اس لیے اب میں گاڑی کا شیشہ اندر سے بھی صاف کرواتا ہوں۔ :grin:
آپ نے شائد توجہ نہیں دی کہ ہوا مارنے کیلئے اسی پائپ کا استعمال کیا جاتا ہے جس سے ٹائر میں ہوا بھری جاتی ہے یا اسکا کنکشن ہائیڈرالک لفٹ سے ہوتا ہے جو سروس سٹیشن پر گاڑی کو اٹھانے کیلئے استعمال کی جاتی ہے۔
ویکیوم کلینر کیلئے انھیں مزید رقم خرچ کرنا پڑے گی جو ہمیشہ ممکن نہیں ہوتا۔ ترقی یافتہ ممالک میں تو اکثر یہ سروس کا حصہ ہی نہیں ہوتی اور اسکے لیے الگ پیسے دینے پڑتے ہیں۔
ویسے ہوا مارنے سے کونے کھدروں کی مٹی نکل آتی ہے جسے کپڑے سے پونچھنا آسان ہو جاتا ہے۔ کم از کم کچھ نہ ہونے سے بہتر ہے۔
:smile:
@ عثمان:
سر جی یہ لاہور ہے۔۔۔دسمبر جنوری میں چلتا ہے ڈیفراسٹر :grin:
@ عمران اشرف:
میں بھی اب اسی وجہ سے اندر سے شیشہ صاف کروانے کی سعادت حاصل کر لینے والوں میں شامل ہو چکا ہوں۔ :lol:
@ فیصل:
کونوں کھدروں سے مٹی نکل آنے والی بات آپ کی مثبت سوچ کی دلیل ہے جناب :grin:
ارے تو آپ لاہور سے ہیں۔ میں تو آپ کو اہل کراچی میںسے سمجھا تھا۔ :grin:
@ عثمان:
یہی تو بات ہے نا پھر :grin:
Post a Comment